کتاب: محدث شمارہ 247 - صفحہ 5
ایک حصہ ہے لہٰذا اہل اسلام کوا سے وَثن بنانے سے منع کردیاگیا۔ اسی طرح قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿فَاجْتَنِبُوْا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ﴾ (22/30) ”تو ’اَوثان‘ کی پلیدی سے بچواور جھوٹی بات سے پرہیز کرو“ یہاں بھی صنم کی بجائے وثن کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے اسلامی شریعت مجسّموں اور بتوں سے بھی پہلے غیر اللہ کی عبادت کی طرف لے جانے والی ہر چیز کو حرام قرار دیتی ہے یہی شریعت ِاسلامیہ کا امتیاز ہے کہ وہ نہ صرف برائی بلکہ برائی کے رستوں کا بھی سدباب کرتی ہے۔ علاوہ ازیں قرآنِ کریم میں ہے : ﴿وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِىْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلاً اَنِ اعْبُدُوْا اللّٰه وَاجْتَنِبُوْا الطَّاغُوْتَ﴾ (النحل:36) ”اور ہم نے ہر امت میں رسول بھیجے کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو“ ﴿ اَلَمْ تَرَ إِلٰى الَّذِيْنَ أوْتُوْا نَصِيْبًا مِّنَ الْكِتَابِ يُوٴْمِنُوْنَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوْتِ﴾ ”کیا آپ نے ان لوگوں پر غور نہیں کیا جنہیں کتاب اللہ سے حصہ ملا ہے پھر بھی وہ جِبْت اور طاغوت پر ایمان رکھتے ہیں “ (النساء:51) طاغوت ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اللہ کے ماسوا کی عبادت کی طرف لے جانے والی ہوجبکہ جبت اَوہام وخرافات ، ٹونے ٹوٹکے وغیرہ پر اعتقاد کے لئے بولا جاتا ہے۔(مترادفات القرآن :ص 183) ان تمام آیات میں ایسی اشیاء کی عبادت ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں فرق نہیں کیا گیاجس سے معلوم ہوتا ہے کہ بی بی سی کا دعویٰ فکری ضلالت کا آئینہ دار ہے جو اسلام سے چور دروازے کھول کر بت پرستی اور طاغوت کی پرستش کی راہ ہموار کرنا چاہتا ہے۔ اہرامِ مصر اور ابوالہول کا مجسمہ بی بی سی کی رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ ”حضرت عمر فاروق نے فتح مصر کے بعد مصر کے بتوں اور مجسّموں کو باقی رکھا۔ مجسمہ اور بت کا جو فرق حضرت عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کو معلوم تھا وہ افغانستان میں ملا عمر کے برسراقتدار آتے آتے غالباً معدوم ہوگیا ہے۔“ لیکن حقیقت یوں نہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ مصر معاہدہٴ جنگ کی صورت میں خلافت ِاسلامی میں شامل ہوا اور اس معاہدہ جنگ میں یہ بات شامل تھی کہ مصر کے عبادت خانوں کی حفاظت کی جائے گی۔ جیسا کہ آگے آرہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ خلافت راشدہ میں ان عبادت خانوں کو توڑا نہیں گیا ۔ اُموی خلیفہ مامون الرشید کے دور میں اہرامِ مصر کو منہدم کرنے کا منصوبہ پیش کیا گیا، جس کا ذکر تاریخ کی کتابوں میں ملتا ہے۔ سب سے پہلے تو اہرامِ مصر کے بارے میں پڑہئے :