کتاب: محدث شمارہ 247 - صفحہ 40
اسی طرح سورۃ کہف کے شروع میں فرمایا ﴿فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ عَلٰی اٰثَارِهِمْ إنْ لَمْ يُوٴمِنُوْا بِهٰذَا الْحَدِيْثِ اَسَفًا﴾ (آیت ۶) کہ ”اے نبی! تم اپنے آپ کو اسی افسو س میں ہلاک کرلو گے کہ یہ لوگ اس حدیث پر ایمان نہیں لاتے۔‘‘ یہاں حدیث سے مراد کیا ہے: قرآنِ مجید۔
کلام اللہ کو بھی حدیث کہتے ہیں ، اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو بھی قرآن مجید میں حدیث کہا گیا ہے۔ سورۃ التحریم میں فرمایا: ﴿وَإذْ أسَرَّ النَّبِیُّ إلٰی بَعْضِ أزْوَاجِهِ حَدِيْثًا﴾ (آیت ۳) کہ ”جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایک بیوی سے ایک بھید کی بات کہی۔‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بات کو اور موٴمنین کی بات کو بھی حدیث کہا گیا ہے۔ سورۃ الاحزاب میں فرمایا:
﴿وَلاَ مُسْتَأنِسِيْنَ لِحَدِيْثٍ إنَّ ذٰلِکُمْ کَانَ يُوٴذِی النَّبِیَّ فَيَسْتَحْیِ مِنْکُمْ﴾ (آیت ۵۳)
یعنی کھانا کھانے کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں بیٹھ کر گپ شپ مت کرو۔ اس سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف ہوتی ہے۔
یہ حدیث کا لفظ کفار اور مشرکین کے اَقوال اور ان کی بات چیت کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں فرمایا:
﴿وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْتَرِيْ لَهْوَالْحَدِيْثِ﴾
اور دوسری آیت میں فرمایا:
﴿وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْکُمْ فِیْ الْکِتَابِ أنْ إذَا سَمِعْتُمْ اٰيَاتِ اللّٰهِ يُکْفَرُبِهَا وَيُسْتَهْزَأ بِهَا فَلاَ تَقْعُدُوْا مَعَهُمْ حَتّٰی يَخُوْضُوْا فِیْ حَدِيْثٍ غَيْرِه ﴾ (النساء:۱۴۰) اور جب کوئی ایسی بات کر رہے ہوں جس میں استہزاء ہو، مذاق اڑا رہے ہوں ، تو مسلمانوں کو چاہئے ان کے پاس مت بیٹھیں ۔ ان کی مجلس میں نہ بیٹھیں یہاں تک کہ وہ دوسری باتوں میں مشغول ہوجائیں ۔
لوگوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ہمارا جو خیال اور عقیدہ ہے، اس کے مطابق قرآن مجید سے کھینچا تانی کرکے مسئلہ نکالیں ۔ دراصل یہ قرآن فہمی نہیں بلکہ قرآن دشمنی ہے۔
۲۔ قرآن کریم کو تعصبات سے پاک ہوکر نہ پڑھنا: قرآن مجید کے فہم کے لئے سب سے بڑی ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ہر قسم کے تعصب سے اور ہر قسم کی عصبیت سے پاک ہو کر اگر قرآن مجید کو پڑھیں گے تب تو اس کو سمجھ سکتے ہیں ۔ اگر کوئی عقیدہ، کوئی فکر، کوئی اِزم اپنے ذہن میں لے کر قرآن مجید کو سمجھنا چاہیں گے تو قرآن مجید سے اور دور ہوجائیں گے۔ لوگوں نے تو یہاں تک مذاق کیا ہے کہ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْتَرِيْ لَهْوَالْحَدِيْثِ میں مذکورہ حدیث کو حدیث ِنبوی قرار دے لیا ہے ، اسے تو آپ پڑھ چکے ہیں ۔ اسی طرح ایک چیز اوربھی ہے جوبظاہر ہنسی کی بات ہے لیکن میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ اس طرح مسلمان فرقہ وارانہ تعصب کی بنا پر قرآن مجید سے دور ہوگئے۔ ایک ایسے صاحب جوحضرت علی رضی اللہ عنہ کے بہت چاہنے والے تھے، نے کہا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی ’شیعہ‘ تھے اور دلیل میں قرآن مجید کی یہ آیت پڑھ