کتاب: محدث شمارہ 247 - صفحہ 38
نہیں ہوتا۔ وہ تو قادرِ مطلق ہے، اس کو انسانوں پر قیاس کیوں کرتے ہو؟ یہ مختلف ذرائع ہیں جن کی بنا پر ہم قرآن مجید کو سمجھ سکتے اور اس پر غور کرسکتے ہیں۔ فہم قرآن کے لئے صرف لغت کافی نہیں : قرآن مجید کی تفسیر قرآن مجید سے، حدیث سے اور پھر لغت سے۔ اوریہ بھی سمجھ لیجئے کہ لغت کافی نہیں ہے کہ سنت کو آپ چھوڑکرمحض لغت کو لے بیٹھیں ۔ ’قاموس‘ یا ’المنجد‘ کولے کر بیٹھ جائیں کہ قرآن کوحل کرلیں گے، یہ بھی غلط ہے۔ بہت سے کلمات، بہت سے اَلفاظ ایسے ہیں کہ جن کی تشریح شارح نے کی ہے لیکن لغت میں اس کے کچھ اور معنی ہیں ۔ اَب لغت میں صلوٰۃ کے معنی دعا (Prayer,Pray)کے آتے ہیں لیکن صلوٰۃ صرف دعا تو نہیں ہے۔ صلوٰۃ دین کی ایک خاص اصطلاح ہے۔ حج کے معنی عربی زبان میں ’قصد کرنے‘ کے آتے ہیں لیکن شریعت میں اس اصطلاح کے ایک خاص معنی ہیں ۔ یہ ایک عبادت ہےجس کے خاص آداب، خاص شرائط اور خاص تعریف ہے۔ اسی طرح زکوٰۃ اور صوم ہے۔ صوم’ صبر‘کے معنی میں آتا ہے لیکن شریعت میں اس کے کچھ اور معنی ہیں ۔ لہٰذا بہت سے اَلفاظ شریعت کے ایسے ہیں کہ جن کو سمجھنے کے لئے لغت کافی نہیں ہے۔ لیکن بہرحال بہت سے اَلفاظ قرآن مجید میں ایسے بھی ہیں کہ جن کے لئے ہمیں لغت کی ضرورت پڑتی ہے نیز جاہلیت کے اَشعار کی مدد سے بھی ہم قرآن مجید سمجھ سکتے ہیں ۔ قرآن فہمی کی راہ میں موانع ۱۔ ذہن میں ایک نظریہ/خیال بٹھا کر قرآن سے اس کی تائید تلاش کرنا: کچھ موانع اور رکاوٹیں ایسی ہیں جو قرآن فہمی میں رکاوٹ بن سکتی ہیں ۔ ان میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ انسان ایک خیال اپنے دل میں جما لیتا ہے اور پھر قرآن مجید کا مطالعہ کرتا ہے کہ میں نے جو خیال اپنے دل میں جمالیا ہے یا کسی قوم سے چرا لیا ہے یا کسی کی نقالی کی ہے۔ وہ خیال، وہ نظریہ، وہ فکر اب میں قرآن مجید سے ثابت کروں حالانکہ قرآن مجید کو سمجھنے کے لئے ضروری یہ ہے کہ انسان خالی الذہن ہو کر پڑھے کہ اس مسئلہ میں قرآن مجید کیا رہنمائی دیتا ہے۔ تب تو وہ کامیاب ہوسکتا ہے ورنہ نہیں ۔ ایک اشتراکی ذہن رکھتاہے، اب وہ اگر قرآن مجید پڑھے گا تو کوشش یہ کرے گا کہ ہر جگہ وہ ایسی آیت ڈھونڈے یا ایسا معنی بیان کرے کہ جس سے انفرادی ملکیت کی نفی ہو اور قومی ملکیت ثابت ہو۔ اسی طرح ایک سرمایہ دار یا بہت بڑا جاگیردار ہے۔ اس کی خواہش یہ ہوگی کہ میں قرآن سے ایسی آیتیں تلاش کروں اور ایسا مطلب نکالوں کہ جس سے سود بھی جائز ہوجائے اور ساری چیزیں جائز ہوجائیں ، حرام بھی حلال ہوجائے۔ یہ رویہ انتہائی خطرناک ہےجس کی بنا پر ہم قرآن مجید سے بہت دور ہوجائیں گے۔