کتاب: محدث شمارہ 247 - صفحہ 37
نہیں آتے تھے۔ مقصد ان کا یہ تھا کہ طواف کرنے کے بعد اب پاک ہوگئے ہیں ۔ اس لئے اس ناپاک دروازے سے داخل نہیں ہوں گے بلکہ پچھواڑے سے داخل ہوں گے۔ اب اگر ہمیں ان کی یہ عادت معلوم ہے تو قرآن مجید کا بیان سمجھ میں آجاتا ہے۔ قرآنِ مجید نے نیکی کے اس تصور کی تردید کی ہے کہ اگلے دروازے سے نہ آیا جائے بلکہ پچھواڑے سے آیا جائے، یہ کوئی نیکی نہیں ہے۔ نیکی تو تقویٰ کا نام ہے۔ تقویٰ اوراللہ کا خوف اختیار کرو۔ کتب ِسماویہ کی معرفت : اسی طرح قرآنِ مجید کو سمجھنے کے لئے کتب ِسماوی بھی معاون ہوتی ہیں ۔ اگرچہ یہ ایک بڑا لمبا معاملہ ہے، لیکن جو لوگ چاہتے ہیں کہ قرآن مجید کو سمجھیں تو ایسی تفسیر جس میں موازنہ کیا گیا ہو،سمجھنے کے لئے بڑی معاون ثابت ہوتی ہے۔ وبضدھا تبیین الأشیاء ضد سے اشیا کی حقیقت ظاہر ہوتی ہے، نور کی قدر ظلمت سے ہوتی ہے۔ جب بجلی چلی جاتی ہے تو روشنی کی قدر ہوتی ہے۔جب بجلی آجاتی ہے تو روشنی ہوجاتی ہے اور خوشی ہوتی ہے۔ اسی طرح بائبل اور تورات میں موجود چیزوں کوسامنے رکھ کر قرآن مجید پڑھیں تو کہیں زیادہ لطف محسوس ہوتا ہے اور بعض الفاظ کے اضافہ کی قدر معلوم ہوتی ہے۔ مثلاً قرآن مجید میں آتا ہے: ﴿وَلَقَدْ خَلَقْنَا السَّمٰوَاتِ وَالأرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا فِیْ سِتَّةِ أيَّامٍ وَمَا مَسَّنَا مِنْ لُغُوْبٍ﴾ (سورۃ ق: ۳۸) کہ ”ہم نے آسمانوں ،زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کوچھ دنوں میں پیدا کیا اور ہمیں کوئی تھکاوٹ نہیں ہوئی۔‘‘ یہ کیوں فرمایا گیا کہ ہمیں کوئی تھکاوٹ نہیں ہوئی۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے۔ کون ہے مسلمان جو ایسا سمجھے بلکہ یہ مشرکین کا بھی عقیدہ نہیں تھا کہ اللہ عزوجل تھک جاتے ہیں ۔ لیکن جب تورات دیکھی تو کتاب پیدائش میں لکھاہوا ہے کہ اللہ میاں نے چھ دن میں آسمان اور زمین بنائے اور ساتویں دن آرام کیا۔ تو قرآن مجید نے کہا کہ ہمیں کوئی تھکاوٹ نہیں ہوئی۔ اگر تورات کا بیان سامنے ہو تو ﴿وَمَا مَسَّنَا مِنْ لُغُوْبٍ﴾ کے سمجھنے میں آسانی ہو جاتی ہے۔ افسوس ہوتا ہے کہ اللہ میاں کی طرف انہوں نے کیسی صفت منسوب کردی ۔ اسی طرح سورۃ الشمس میں آتا ہے ﴿فَدَمْدَمَ عَلَيْهِمْ رَبُّهُمْ بِذَنْبِهِمْ فَسَوَّهَا وَلاَيَخَافُ عُقْبٰهَا﴾ (آیت:۱۵) ”قومِ ثمود کو اللہ تعالیٰ کے عذاب نے تباہ کردیا اور اللہ تعالیٰ کسی کے انجام کا خوف نہیں رکھتا“ سو اس نے تباہ کردیا۔ اسے کوئی خوف نہیں ہے،کوئی ڈرنہیں کہ کیوں تباہ کیا ہے۔ یہ اس وجہ سے فرمایا کہ تورات کی کتاب الخروج میں لکھا ہے کہ قومِ ثمود کو تباہ کرنے کے بعد اللہ سبحانہ پچھتائے یعنی خدا پچھتایا، افسوس کیا اور نادم ہوا، ا س لئے قرآنِ مجید میں فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے قومِ ثمود کو اس کے گناہوں کی وجہ سے تباہ کردیا۔ اس کے انجام سے اللہ تعالیٰ کو کوئی خوف نہیں ۔ پچھتانے کا سوال ہی پیدا