کتاب: محدث شمارہ 247 - صفحہ 33
قرآن فہمی کا پانچواں ذریعہ… آثارِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس کے بعد ایک ذریعہ آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم کاہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال، بالخصوص عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ، اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ اوروہ لوگ جنہوں نے قرآن مجید کی خدمت کی ہے۔ ان کے سامنے قرآن مجید نازل ہوا ہے لہٰذا ان کی تفسیر کو مانا جائے گا۔ اگر کہیں ان میں اختلاف ہو تو جو قول قرآن مجید سے زیادہ قریب ہو، اس کو لیا جائے گا۔ یہ بھی ضروری ہے، اس کی مثال لیجئے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح بخاری میں نقل کیا ہے کہ ایک شخص حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آیااور اس نے کہا کہ ہم قرآن مجید پڑھتے ہیں اوراس کیآیات میں تعارض پایا جاتا ہے، ٹکراؤ اور تصادم پایا جاتا ہے۔ ایک جگہ ’ہاں ‘ ہے، ایک جگہ’نہیں ‘ ہے تو وہاں ہم کیا کریں ۔ انہوں نے کہا کہ بتاؤ وہ کون سی آیات ہیں تاکہ میں بھی جانوں کہ تمہارے ذہن میں کیا خلجان ہے؟ سائل نے کہا کہ قرآن مجید میں ایک جگہ آتا ہے کہ جب قیامت قائم ہوگی تو مشرکین اللہ تعالیٰ کے دربار میں جاکر کہیں گے: ﴿وَاللّٰهِ رَبِّنَا مَاکُنَّا مُشْرِکِيْنَ﴾ (سورۃ الانعام) ”قسم اللہ کی! ہم تو مشرک نہیں تھے۔ ہم نے تو شرک نہیں کیا۔“ وہ انکار کریں گے یعنی اس طرح وہ اپنے شرک کو چھپائیں گے جیسے دنیا کے رشوت خور کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے تو رشوت نہیں لی۔ جبکہ دوسری آیات میں آتا ہے﴿ وَلاَ يَکْتُمُوْنَ اللّٰهَ حَدِيْثًا﴾ ا ور وہ اللہ تعالیٰ سے کوئی بات نہیں چھپا سکیں گے۔ یہاں ٹکراؤہوگیا کہ مشرکین نے چھپایا تو ہے جیسا کہ پہلی آیت میں ہے لیکن دوسری آیت میں آتا ہے کہ وہ چھپا نہیں سکیں گے تو اس کا کیا مطلب ہے۔ اس وقت حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے وضاحت فرمائی کہ یہ ایک وقت میں نہیں بلکہ ایسا دو اوقات میں ہوگا۔ شروع میں تو کفار یہ سمجھیں گے کہ یہ دربار بھی ہمارے دنیاوی حکام اور بادشاہوں کی طرح ہے۔ اگر ہم یہاں جھوٹ بول دیں اورکچھ چھپالیں تو ہوسکتا ہے کہ کام چل جائے۔ اس بنا پر وہ کہیں گے کہ ﴿وَاللّٰهِ رَبِّنَا مَاکُنَّا مُشْرِکِيْنَ ﴾ وہ اس طرح جھوٹ بول دیں گے کیونکہ انہیں جھوٹ بولنے کی عادت رہی ہے۔ لیکن اس کے بعد پھر یہ ہوگا کہ : ﴿اَلْيَوْمُ نَخْتِمُ عَلٰی أفْوَاهِهِمْ وَتُکَلِّمُنَا أيْدِيْهِمْ وَتَشْهَدُ أرْجُلُهُمْ بِمَا کَانُوْا يَکْسِبُوْنَ﴾ ”اس دن ہم ان کے مونہوں پرمہر لگا دیں گے ،ان کے ہاتھ ہم سے کلام کریں گے اور ان کے پاؤں اس کی گواہی دیں گے جو وہ کسب کیا کرتے تھے“ … اللہ تعالیٰ مہر لگا دیں گے۔ جب مہر لگ جائے گی تو یہ اَعضا و جوارح گواہی دیں گے: منہ بند، زبان بند، مہر لگ گئی۔ اب یہ اعضا و جوارح یہ ہاتھ پاؤں ، آنکھ، کان گواہی دیں گے کہ کیا دیکھا تھا، ہاتھوں سے کیا پکڑا تھا۔ قدم کہاں کہاں بڑھائے تھے، اس وقت کوئی بات نہیں چھپائی جاسکے گی۔ تو یہ دو مرحلے اور دو وقت ہیں ۔ اب یہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ کی تفسیر ہے۔اس کے بعد اس آدمی نے ظاہراً قرآن کریم کی چند باہم