کتاب: محدث شمارہ 247 - صفحہ 32
قرآن مجید کا جو اصل مقصد ہے کہ لِتُخْرِجُ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ إلَی النُّوْرِ کہ بجائے ظلمات سے نکلنے کے ہم ظلمات ہی میں ڈوبے رہیں گے کہ ایک تاریکی سے نکلیں گے، دوسری تاریکی میں چلے جائیں گے۔
دوسری مثال: اسی طرح قرآنِ مجید میں آتا ہے: ﴿يُوْصِيْکُمُ اللّٰهُ فِیْ أوْلاَدِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الاُنْثَيَيْنِ﴾ (النساء: ۱۱)یہاں پر کوئی تفصیل نہیں ہے کیسی اولاد ہو۔ لیکن حدیث سے معلوم ہوتا ہے ”لایرث القاتل“کہ بیٹے نے اگر باپ کو قتل کردیا تو وارث نہیں ہوگا۔ مزید برآں حدیث نے یہ مفہوم بیان کردیا کہ اختلافِ دین ہونے کی بنا پر یا قاتل ہونے کی بنا پر وہ اپنے باپ کا وارث نہیں ہوسکتا۔
تیسری مثال: قرآن مجید میں آتا ہے لیکن قرآن میں صرف اشارہ ہے اورحدیث میں وضاحت کردی گئی ہے کہ اس آیت کے کیا معنی ہیں ۔ قرآن مجید میں محرماتِ ابدیہ کا بیان ہوا ہے۔ نکاح کے لئے مائیں حرام ہیں ، بیٹیاں حرام ہیں اور بہنیں حرام ہیں ۔ لمبی آیت ہے اور اس کے بعد فرمایا کہ اس کے علاوہ تمہارے لئے حلال ہے لیکن رسول اکرم نے فرمایا: (آپ کا اجتہاد بھی وحی کی روشنی میں تھا) آپ نے فرمایا: لايجمع بين المرأة وعمتها وبين المرأة وخالتهاکہ پھوپھی اور بھتیجی ، خالہ اور بھانجی کو بیک وقت ایک شخص کے نکاح میں رکھنا حرام ہے۔ قرآن مجید میں اس کا ذکر نہیں ہے لیکن قرآن مجید میں یہ ذکر ہے کہ أنْ تَجْمَعُوا بَيْنَ الاُخْتَيْنِ ” دو بہنوں کو جمع کرنا حرام ہے۔‘‘
اس کی وجہ کیا ہے کہ جب دو سگی بہنیں سوکنیں بن جائیں گی تو سوکن کے رشتہ میں ایک قسم کی رقابت اورعداوت ہوتی ہے۔ اوربہنیں ہونے کا رشتہ یہ چاہتا ہے کہ دونوں میں محبت ہو۔ گویا اس طرح سے دونوں میں قطع تعلق ہوجائے گا۔ اسی لئے ایک حدیث میں ہے، ابن حبان کی روایت ہے کہ رسول اکرم نے فرمایا: إذا فعلتم ذلک قطعتم أرحامکم کہ اگر تم نے ایسا کیا تو تم اپنے رشتوں کو کاٹ ڈالو گے۔ دو بہنوں میں محبت ہوتی ہے ،وہ نہیں رہے گی۔ ٹھیک اسی طرح پھوپھی اور بھتیجی، خالہ اور بھانجی ان کا قریبی رشتہ ہے، دونوں میں محبت ہے جو فطری چیز ہے۔ اب اگر دونوں بیک وقت ایک شخص کے نکاح میں ہوں گی تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ وہ دونوں سوکنیں بن جائیں گی۔ آپس میں رقابت اور عداوت پیداہوگی۔ اور ان کی محبت، نفرت میں تبدیل ہوجائے گی۔ یہ حکیمانہ تعبیر حدیث سے معلوم ہوتی ہے۔
اس قسم کی روایات کو اگر آپ تسلیم نہیں کریں گے تو اسلامی نظام قائم نہیں ہوگا۔ قرآنِ مجید کو سمجھنے کے لئے اخبار آحاد یعنی وہ روائتیں جن کے بیان کرنے والے ایک یا دو یا تین ثقہ راوی ہیں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ایسی صحیح روایات کوبھی قرآن فہمی میں دخل ہے اور ان کے بغیر ہم قرآن مجید کو نہیں سمجھ سکتے۔ اختصار کے پیش نظر انہی مثالوں پر اکتفا کرتا ہوں ۔