کتاب: محدث شمارہ 247 - صفحہ 31
گے کہ اگر قرآن مجید کی کسی آیت کا مطلب ہم سمجھنا چاہتے ہیں جو سیاق و سباق، کسی دوسری آیت یا تعامل امت سے ہم نہیں سمجھ سکے ہیں تو پھر ہم نبی اکرم کی ثابت شدہ سنت کی طرف رجوع کریں گے۔ ثقہ راویوں سے جو چیز ہمیں حاصل ہوئی ہو، اس کی مدد سے ہم قرآن مجید کو سمجھیں گے۔
پہلی مثال: قرآن مجید میں آتا ہے: ﴿وَالَّذِيْنَ يَکْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلاَيُنْفِقُوْنَهَا فِیْ سَبِيْلِ اللّ هِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ ألِيْمٍ﴾ (التوبہ: ۳۴)
”جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں ، اوراللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ہیں ان کو دردناک عذاب کی بشارت دے دو۔‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تو اہل زبان تھے۔ جب انہوں نے یہ آیت سنی تو پریشان ہوگئے۔ کنز کے معنی جمع کرنے کے ہیں خواہ تھوڑا مال ہو یا زیادہ۔ انہوں نے کہا: أينا لم يکنز ہم میں سے کون ہے جس کے پاس کنز نہیں ہے۔ تھوڑا بہت سونا چاندی تو تقریباً سب کے پا س ہے۔ اب کیا عذاب جہنم کی سب کے لئے بشارت ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں رسول اکرم کی خدمت میں جاتاہوں اورپوچھتا ہوں کہ اس کا کیا مطلب ہے؟ ابوداود کی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: ماأدی منه زکوٰة فليس بکنز”جس مال میں سے زکوٰۃ نکال دی جائے، شریعت کے مطابق غریبوں کا حق دیا جائے، وہ کنز نہیں رہتا۔“
یہاں اگر آپ لغت کے لحاظ سے دیکھیں گے تو کنز بن جاتا ہے خواہ تھوڑا مال ہویا زیادہ۔ لیکن رسول اکرم نے اس کی تشریح کردی اور ایک دوسری حدیث میں آتا ہے، آپ نے فرمایا: إن اللّٰه لم يفرض الزکوٰة إلا ليطيب ما بقی من أموالکم” اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ اس لئے فرض کی ہے تاکہ اللہ تعالیٰ تمہارے باقی ماندہ مال کو پاک کردے۔‘‘ زکوٰۃ نکالنے کے بعد جو مال بچے گا وہ مال پاک ہوگا۔
کیا قرآن مجید اپنامفہوم بیان کرنے میں حدیث کا محتاج ہے ؟ یہ ایک مثال ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم قرآن مجید کو سمجھنے کے لئے سنت اور حدیث کے محتاج ہیں ۔ منکرین حدیث یہ کہہ دیتے ہیں کہ کیا قرآن ناقص ہے؟ کیا قرآن ادھورا ہے جو ہم سنت کو مانیں ؟ کیا ہمارے لئے قرآن کافی نہیں ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن مجید تو اپنے مطالب میں ناقص اور ادھورا نہیں ہے لیکن ہم اس کو سمجھنے کے لئے سنت کے محتاج ہیں جس طرح کہ ہم عربی زبان کے محتاج ہیں ۔ کیا کوئی صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ بغیر عربی زبان جانے وہ قرآن مجید سمجھ جائیں گے۔ قرآن مجید عربی زبان میں ہے تو عربی زبان بھی سمجھیں ۔اس کے معنی یہ نہیں کہ چونکہ آپ عربی زبان کے محتاج ہیں ، اس لئے قرآن مجید ناقص ہے۔ قرآن مجید محتاج نہیں ، ہم عربی زبان کے محتاج ہیں ۔اس طرح ہم محتاج ہیں رسول اکرم کی تشریح و تفسیر کے کہ جس ہستی پر قرآن مجید نازل ہوا تھا، اس ہستی نے اس آیت کا کیا مطلب سمجھا تھا۔ اگر ہم اس سے بے نیاز ہوجاتے ہیں اوراپنی طرف سے مطلب بیان کرتے ہیں تو حقیقت میں ہم سیدھے راستے سے بھٹک رہے ہیں اور