کتاب: محدث شمارہ 247 - صفحہ 30
بہت سی مثالیں ہوسکتی ہیں لیکن اس وقت میں اسی مثال پر اکتفا کروں گا۔
قرآن فہمی کا تیسرا ذریعہ…تعامل اُمت
قرآن فہمی کے لئے تیسرا ذریعہ تعامل اُمت ہے۔ یعنی پوری امت کا جو تعامل چلا آرہا ہے وہ بھی قرآن مجید کے فہم میں معاون ہے۔ اگر تعامل اُمت کو آپ نظر انداز کردیں تو پھر ایسی صورت میں قرآن مجید کا فہم حاصل نہیں ہوسکتا۔ تعامل سے مراد ہے عہد ِنبوی سے لے کر صحابہ رضی اللہ عنہم کے دور میں ، تابعین کے دور میں ، محدثین اور فقہا کے دورمیں اس پر کیسے عمل کیا گیا۔ مفسرین کے دور سے لے کر اب تک جو بات لوگوں میں دین کے نام سے رائج چلی آرہی ہے، وہ قرآن کے لئے بہترین تفسیر ہے۔ یہ نہیں کہ ساتویں صدی ہجری سے لے کر اب تک جو رسم و رواج اور بدعات رائج ہوگئیں ، ان کو ہم تعامل امت کہہ دیں ۔ وہ تعامل اُمت نہیں کہلائی جاسکتیں ۔ مثلاً قرآن مجید میں آتا ہے﴿ أقِيْمُوْا الصَّلٰوٰةَ﴾ نماز قائم کرو۔ اب یہ نماز کس طرح قائم کریں ، کتنی رکعات ظہر کی ہیں اور کتنی عصر کی ۔ یہ تعامل ہے، یہ تواتر ہے جس کا انکار ایسے ہی ہے جیسے قرآن مجید کا انکار۔ جس طرح قرآن مجید تواتر سے ثابت ہے، اسی طرح نماز کی رکعات بھی۔ ایک مرتبہ میں یہی مضمون بیان کر رہا تھا کہ میری زبان سے غلطی سے عصر کی تین رکعتیں نکل گئیں ۔ فوراً آوازیں آئیں ، چار رکعتیں ، چار رکعتیں ۔ میں نے کہا کہ یہ اس بات کی نشانی ہے کہ یہ کتنا مشہور مسئلہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس طرح ہم آہستہ آہستہ سنت سے بیگانہ ہوکر بدعات میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔ اذان، نماز کی رکعات کی تعداد تعامل اُمت سے ثابت ہیں ۔
پانچ کا لفظ قرآن مجید میں نہیں آیا ہے۔ لیکن تمام اُمت کا تعامل ہے کہ پانچ وقت کی نماز ہے۔ ہاں منکرین حدیث میں سے بعض نے کہا تین وقت، کسی نے کہا دو وقت، کسی نے کہا ایک وقت، کسی نے کچھ کہا کسی نے کچھ، یہ الگ مضمون ہے۔ میرا مطلب یہ ہے کہ تعامل کا جو انکار کرتا ہے وہ قرآن مجید کا منکر ہے۔ ’تعامل‘ حدیث کی کتابوں میں موجود ہے۔ امت کے تعامل سے احادیث کے مضمون کی تائید ہوجاتی ہے، اس طرح دونوں کو ایک دوسرے سے تقویت حاصل ہوجاتی ہے۔ قرآن مجید کے فہم کا یہ تیسرا ذریعہ ہے۔ ورنہ آپ حج کیسے کریں گے؟ حج نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کیا ہے، جزئیات میں اختلاف ہے لیکن جو بنیادی اور اہم چیزیں ہیں مثلاً طواف، سعی، اِحرام ان میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
فہم قرآن کا چوتھا ذریعہ… اخبار آحاد
اس کے بعد فہم قرآن کا چوتھا ذریعہ ہے :اخبار آحاد یعنی وہ احادیث جن کا درجہ تواتر کا نہیں ہے لیکن وہ صحیح روایات ہیں ۔ ثقہ راویوں سے وہ روایات ہم تک پہنچی ہیں ۔ ان روایات کی بنیاد پر ہم یہ کہیں