کتاب: محدث شمارہ 247 - صفحہ 3
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ مصر کی فتح کے بعد سب سے پہلے ابوالہول کے مجسّمے کو گراتے جو دریائے نیل کی سرزمین پر اسلام کی آمد سے بھی دو ہزار سال قبل سے ایستادہ تھا۔ ابوالہول ساڑھے تین ہزار سال سے اب بھی سینہ تانے کھڑا ہے۔ مجسمہ اور بت کا جو فرق حضرت عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کو معلوم تھا وہ افغانستان میں ملا عمر کے برسراقتدار آتے آتے غالباً معدوم ہوگیا ہے۔ اسی لئے گذشتہ دنوں قندھار سے یہ فرمان جاری ہوا کہ تمام بت گرا دیئے جائیں ۔ ان میں قبل از اسلام کا مہاتما بدہ کا بامیان میں ایستادہ 50میٹر طویل پہاڑی مجسمہ بھی شامل ہے جونہ صرف افغانستان بلکہ عالمی ورثہ ہے۔“ (نوائے وقت: 3 مارچ ،صفحہ آخر) اسی رپورٹ میں بیسویں صدی کے چندشواہد کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے کہ طالبان کی بت شکن مہم کو اسلام کی حمایت حاصل نہیں بلکہ یہ محض طالبان کی انتہا پسندی کا اِعجاز ہے۔ ان مثالوں میں 1979 کے انقلابِ ایران کے بعد تخت ِجمشید کے پرانے آثار کو جوں کا توں باقی رہنے دینے اور پاکستان میں موہنجوداڑو اور ہڑپہ تہذیب کے نشانات کی حفاظت وغیرہ کے اقدامات شامل ہیں ۔ مزید برآں 1949ء میں چین کے کمیونسٹ انقلاب کے دوران ایک مسجد کے تحفظ کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے جس کی تعمیر کی نسبت ایک صحابی رسول کی طرف کی جاتی ہے کہ غیر مسلم چینیوں نے اس مسجد کو آج تک باقی رکھا ہواہے۔ تھائی لینڈ کی وزارتِ خارجہ نے بت شکنی کی اس مہم کا رخ موڑنے کی کوشش اس انداز میں کی ہے کہ اگر کل افغانستان میں امن قائم ہوجائے تو یہ تاریخی نوادرات غیر ملکی سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن کر ملکی آمدنی میں اضافے کا سبب بن سکتے ہیں (نوائے وقت: 28فروری) بعض نے افغانستان میں قحط کے خاتمے کے لئے ان بتوں کی فروخت کو افغان قوم کے لئے موزوں قرار دیا ہے۔ اب تک جاپان، ایران، بھارت، نیویارک کی میٹرو پولیٹن کو نسل اور متعدد عجائب گھروں کی طرف سے ان بتوں کو خریدنے کی آفرز کی جاچکی ہیں ۔ اخبارات کے مطابق مولانا سمیع الحق نے بھی طالبان کو ان بتوں کو فروخت کرنے، عجائب گھروں کے حوالے کردینے یا مصر کی مثال سامنے رکھتے ہوئے بطورِ عبرت رکھ چھوڑنے اور ان کی عبادت روک دینے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ (نوائے وقت : 28فروری) افغانستان میں یہ بت طلوعِ اسلام سے قبل کے ہیں جن میں کابل میوزیم میں 600 کے قریب بت اور بامیان میں گوتم بدھ کے 65 اور 34 میٹر اونچے دومجسّموں کے بارے میں دنیا میں زیادہ تشویش پائی جاتی ہے۔ عالمی صورتحال اور سیاسی حکمت ِعملی سے قطع نظرپہلے ہم ا ن صفحات میں ان مغالطوں کا جائزہ پیش کریں گے جو اسلام کے تصورِ اصنام کے بارے میں پھیلائے جارہے ہیں ۔کیونکہ کسی کو یہ حق حاصل نہیں