کتاب: محدث شمارہ 247 - صفحہ 29
إنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَرَحْمَةً وَذِکْرٰی لِقَوْمٍ يُّوٴمِنُوْنَ﴾ (العنکبوت: ۵۱) فرمایا: ”کیا ان کوکافی نہیں ہے کہ ہم نے ان پر کتاب اُتاری ہے جس میں موٴمنوں کے لئیرحمت ہے اور نصیحت ہے ۔‘‘ اب اس آیت کو ان لوگوں نے مغالطہ دینے کے لئے چن لیا ہے جو حدیث کو حجت نہیں سمجھتے بلکہ کہتے ہیں کہ ہمارے لئے اس آیت کی رو سے قرآن کافی ہے۔ حدیث اور سنت کی کیا ضرورت ہے۔ ان مغالَطوں کی باقاعدہ کتابوں اور رسالوں میں اشاعت ہورہی ہے اور ان نوجوانوں کو جو قرآن مجید کو نہیں سمجھتے یا ان کا قرآن مجید سے تعلق نہیں رہا ہے، مغالطہ میں مبتلا کیا جارہا ہے۔ اور ان کے ذہن میں یہ بٹھانے کی کوشش ہورہی ہے کہ حدیث و سنت کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں ، قرآن خود کہہ رہا ہے کہ ہمارے لئے توبس قرآن کافی ہے۔ لیکن آپ اگر یہ دیکھیں کہ اس کا سیاق و سباق کیا ہے، اس سے پہلے کیا ہے، کس کے جواب میں یہ کہا گیاہے تو سمجھنے میں دقت پیش نہیں آئے گی۔اس سے پہلے یہ آتا ہے﴿ وَقَالُوْا لَوْلاَ أنْزِلَ عَلَيْهِ اٰيٰتٌ مِّنْ رَبِّهِ﴾ اس نبی پر ربّ کی طرف سے نشانیاں کیوں نہیں نازل ہوتیں ۔ ان کا مطالبہ معجزوں کے لئے تھا جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کو معجزہ دیا گیا تھا کہ سمندر پھٹ گیا اور قافلہ گذر گیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو معجزات دیئے گئے تھے جنہیں لوگ آنکھوں سے دیکھتے تھے کہ کس طرح کوڑھیوں کو اچھا کرتے ہیں ،اندھوں کو بینا بناتے ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے معجزات اور اس طرح کی نشانیاں رسولِ اکرم کو کیوں نہیں دی گئیں ۔ تویہ تھا ان کا سوال ان آیات کو پھر پڑھئے :
﴿وَقَالُوْا لَوْلاَ أنْزِلَ عَلَيْهِ اٰيٰتٌ مِّنْ رَبِّه قُلْ إنَّمَا الاٰيٰتُ عِنْدَ اللّٰهِ وَإنَّمَا أنَا نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ، اَوَلَمْ يَکْفِهِم إنَّا أنْزَلْنَا عَلَيْکَ الْکِتَابَ يُتْلٰی عَلَيْهِمْ إنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَرَحْمَةً وَذِکْرٰی لِقَوْمٍ يُّوٴمِنُوْنَ﴾ (العنکبوت: ۵۰،۵۱)
” نیز کہتے ہیں کہ اس پر اسکے ربّ سے معجزے کیوں نہ نازل ہوئے آپ کہیے کہ معجزے اللہ کے پاس ہیں اورمیں تو واضح ڈرانے والا ہوں ۔کیا انہیں کافی نہیں کہ ہم نے آپ پر یہ کتاب نازل کی ہے جو انہیں پڑھ کر سنائی جاتی ہے۔ اس میں ایمان لانے والوں کیلئے یقینا رحمت اور نصیحت ہے ۔“
یہ زندہ معجزہ ہے جوقیامت تک کے لئے ہے۔ آخر اس معجزہ کے ہوتے ہوئے پھر وہ کہتے ہیں کہ ایسے معجزے دکھاؤ جیسے کہ دوسرے انبیاء کرام علیہم السلام نے دکھائے۔ یہاں وہ بات بنتی نہیں ہے جو منکرین حدیث بنانا چاہتے ہیں ۔ یہاں نہ حدیث کے ردّ کا سوال ہے، نہ اس کے عدمِ حجیت کا معاملہ ہے۔ یہاں جو ان کا اصل سوال اور مقصد تھا کہ محسوس معجزات دکھاؤ، تواس کا ردّ کیا گیا ہے۔ تو معلوم یہ ہوا کہ قرآن مجید کو سمجھنے کے لئے اس بات کی ضرورت ہے کہ قرآن مجید کا سیاق و سباق بھی ہمارے سامنے رہے۔ لیکن اگر وہ سامنے نہیں رہتا تو ایسی صورت میں یہ عین ممکن ہے کہ ہم غلط راستے پر چلے جائیں ۔ اس سلسلہ میں اور بھی