کتاب: محدث شمارہ 247 - صفحہ 27
روزہ کی ضرورت نہیں ۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص فوج کا سالارِ اعلیٰ بن جائے تو وہ تو پریڈ نہیں کرتا،پریڈ تو نیچے کے لوگ کرتے ہیں ۔ پریڈ تو سپاہی کرتے ہیں ، سالارِ اعظم یا کمانڈر انچیف تو پریڈ نہیں کرتا۔ وہ اس سے بالاتر ہوگیا۔اسی طرح جب یقین آگیا ہے تو عبادت کے تم مکلف نہیں رہے ہو۔“
یہ کتنا گمراہ کن عقیدہ ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ انسان اسی زندگی میں غیر مکلف ہوگیا۔ اور عبادت کی زحمت سے اپنے آپ کو بچا لیا کیونکہ اسے وہ زحمت سمجھتا ہے حالانکہ رسول اکرم کا یہ حال تھا کہ آپ عبادت کرتے تھے: ”حتیٰ تورّمت قد ماہ“ یہاں تک کہ آپ کے قدمِ مبارک پر ورم آجاتا تھا۔ رات کو دیر دیر تک تہجد کی عبادت کرتے تھے، لمبے لمبے قیام کرتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک بار کہا: آپ کا اتنا بڑا درجہ ہے، آپ بخشے بخشائے ہیں ، آپ اتنی محنتکیوں کرتے اور اتنی مشقت کیوں برداشت کرتے ہیں تو فرمایا: أفلا أکون عبداً شکورا ”کیا میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں “، مجھ پر اللہ تعالیٰ نے اتنے انعامات اور احسانات کئے ہیں ، کیا میں ان کا شکریہ اَدا نہ کروں ؟ معلوم یہ ہوتا ہے کہ مراتب کے لحاظ سے جو جتنا اونچا ہوتا ہے ، اتنا ہی وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے جھک جاتاہے۔ عبادت میں اتنا ہی اس کا ذوق بڑھ جاتا ہے۔ اور جوجتنا اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا ہے، اسی قدر شیطان کے پھندے میں پھنس کر اللہ تعالیٰ کی عبادت سے محروم ہوجاتا ہے۔
قرآن مجید میں ’یقین‘ کے معنی ایک اور جگہ بھی آئے ہیں ۔ سورۃ المدثر میں آتا ہے کہ جب جہنمی جہنم میں چلے جائیں گے اور جنتی جنت میں پہنچ جائیں گے تو جنتی جہنمیوں سے سوال کریں گے: ﴿مَا سَلَکَکُمْ فِیْ سَقَرٍ﴾ تمہیں جہنم میں کس چیز نے دھکیل دیا، تم نے کیا کرتوت کئے تھے کہ جن کی بنا پر تم جہنم میں گئے: ﴿قَالُوْا لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّيْنَ، وَلَمْ نَکُ نُطْعِمُ الْمِسْکِيْنَ، وَکُنَّا نَخُوْضُ مَعَ الْخَآئِضِيْنَ، وَکُنَّا نُکَذِّبُ بِيَوْمِ الدِّيْنِ حَتّٰی اَتٰنَا الْيَقِيْنُ﴾ (سورۃ المدثر: ۴۲،۴۷) انہوں نے کہا کہ ہمارا قصور یہ ہے کہ ہم نماز نہیں پڑھتے تھے۔ نمازیوں میں ہمارا شمار نہیں تھا کیونکہ نماز ادا نہیں کرتے تھے اور غریبوں و مسکینوں کو ہم کھانا بھی نہیں کھلاتے تھے، ان کی مدد بھی نہیں کرتے تھے اور گپ شپ کرنے والوں کے ساتھ ہم بھی مشغول ہوجاتے تھے اور ہم الدین یعنی یومِ جزا کے منکر تھے۔ اور ہمارا یہ سلسلہ جاری رہا حتی اتٰنا الیقین یہاں تک کہ ہمیں ’یقین‘ نے آلیا۔ یہاں یقین کے معنی ’موت‘ کے ہیں ۔ یعنی آخری سانس تک ہمارا یہی عمل رہا۔
معلوم ہوا کہ ہماری پیش نظر آیت میں ’یقین‘ کے جو مشہور معنی ہیں وہ تو نہیں لیے جاسکتے جبکہ قرآن مجید کی اصطلاح میں ’یقین‘ کے معنی موت کے بھی آتے ہیں کیونکہ موت سے زیادہ یقینی چیز اور کوئی نہیں ۔ بہت بڑا وصف موت کا یقین ہے۔ ہم روزانہ دیکھتے ہیں ، آج اس کو کاندھا دے رہے ہیں ، آج اس کے