کتاب: محدث شمارہ 247 - صفحہ 26
اپنے ایمان کی شہادت دی اور صالحین، اللہ کے نیک بندے جو حلال و حرام میں تمیز کرتے ہیں اور اللہ کے دین کو قائم رکھتے ہیں ۔ یہ اس اجمال کی تفسیر ہوگئی جو سورۃ فاتحہ میں ہے۔
اسی طرح سورہ بقرہ میں مَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ کے ضمن میں یہود کا ذکر آتا ہے اور سورہ آل عمران میں نصاریٰ کا ذکر آتا ہے، یہ ضَآلِّيْنَ ہیں ۔ مَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ اور ضَآلِّيْنَ میں فرق ہے : مَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وہ قوم ہے جو معاندانہ روش اختیار کرتی ہے، جانتے بوجھتے حق سے کتراتی ہے، علم رکھتے ہوئے حق کو جھٹلاتی ہے۔ یہود اس میں خاص طور پر نمایاں ہیں ۔ وہ جانتے تھے کہ حق کیاہے: ﴿ يَعْرٍفُوْنَهُ کَمَا يَعْرِفُوْنَ أبْنَاءَ هُمْ﴾” وہ رسول اکرم کو پہچانتے تھے جس طرح وہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے تھے۔‘‘ جس طرح انہیں اپنے بیٹوں کے بارے میں کوئی شک نہیں کہ یہ ہماری اولاد ہے، اسی طرح رسول اکرم کو پہچانتے تھے کہ یہ اللہ کے رسول ہیں ۔ اس معرفت اور علم کے باوجود انکار کیا۔ یہ یہود تھے جنہوں نے عناد اور سرکشی کی راہ اختیار کی۔ ضالین وہ ہیں جو بغیر علم کے غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ، علم ہی حاصل نہیں کیا۔ نصاریٰ میں یہ وصف نمایاں ہے۔ ان میں معاندین بھی ہوں گے لیکن زیادہ وہ ہیں جنہوں نے علم کے بغیر گمراہی کی راہ اختیار کی۔ اسی لئے نصاریٰ میں بدعات زیادہ پیدا ہوئیں ۔
بدعت اور بغاوت میں فرق : بدعات زیادہ وہاں پیدا ہوتی ہیں جہاں جہالت زیادہ ہوتی ہے۔ جہاں سرکشی اور عناد ہے وہاں بغاوت پیدا ہوتی ہے۔ بغاوت اور بدعت میں فرق ہے۔ بغاوت کے معنی ہیں : دین سے نفرت اور بدعت وہ ہے جہاں بدعتی دین سے محبت رکھتا ہے، اتنی زیادہ محبت رکھتا ہے کہ پھر وہ دین کے معاملہ میں غلو کرجاتاہے۔ اور اپنی طرف سے کچھ ایسے طریقے ایجاد کرتا ہے جن سے وہ چاہتا ہے کہ وہ اور آگے بڑھ جائے۔اسی لئے قرآنِ مجید میں فرمایا: ﴿وَرَهْبَانِيَّةَ نِ ابْتَدَعُوْهَا مَاکَتَبْنٰهَا عَلَيْهِمْ إلاَّ ابْتِغَاءَ رِضْوَانَ اللّٰهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا﴾ کہ رہبانیت یعنی ترکِ دنیا کا طریقہ نصاریٰ نے اختیار کیاتھا، انہوں نے خود اس کو ایجاد کیا ہے۔ یہ بدعت ان کی طرف سے ہے۔ ہم نے یہ طریقہ ان پر لازم نہیں کیاتھا، ہم نے یہ طریقہ ان کو نہیں سمجھایا تھا۔ یہ ان کی اپنی ایجا دہے۔ تو یہ فرق ہے مَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ اور ضَآلِّيْنَ میں ۔ اور ان دونوں کی تفسیر سورۃ البقرۃ اور سورۃ آل عمران میں آگئی۔
دوسری مثال: اسی طرح قرآن مجید میں آتا ہے، فرمایا:﴿وَاعْبُدْ رَبَّکَ حَتّٰی يَأتِيَکَ الْيَقِيْنُ﴾ (سورۃ الحجر: ۹۹) ”اور اپنے ربّ کی عبادت کر یہاں تک کہ تجھے یقین آجائے۔‘‘ اب یہاں بعض لوگوں کو مغالطہ ہوگیا کہ ’یقین‘ اپنے مشہور مفہوم میں مستعمل ہے۔ جب ’یقین‘ کامل ہوگیا تو نماز روزہ کی کیا ضرورت ہے۔ کچھ عرصہ قبل ہمیں پتہ چلا کہ ناظم آباد میں کوئی پیر صاحب تھے۔ انہوں نے اپنے مرید سے کہا کہ ”عبادت ہم نے کرلی اور عبادت کرکے اب ایسے مقام پر ہم پہنچ گئے ہیں کہ اس کے بعد اب نماز