کتاب: محدث شمارہ 247 - صفحہ 25
بظاہر بڑی خدمت کی اوربہت سے مضامین اور کتابیں لکھی ہیں لیکن وہ صرف تحقیق برائے تحقیق ہے۔ ان کا مقصد یہ نہیں ہے کہ وہ اس پر عمل کریں گے یا وہ سب کے سب قرآنِ مجید کی عظمت کے قائل ہیں ۔ ہوسکتا ہے کہ بعض قائل ہوں لیکن ایمان نہیں لائیں گے۔ ان کا مقصد محض تحقیق کرنا ہے۔ جس طرح وہ علومِ شرقیہ کی دوسری کتابوں کی تحقیق کرتے ہیں ، اسی طرح قرآنِ مجید کی بھی تحقیق کر رہے ہیں ۔ لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ دل و جان سے قرآن مجید کی خدمت بھی کر رہے ہیں ۔ غرض تیسرا زینہ یہ ہے کہ قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھ کر اس پر عمل کیا جائے۔ اپنے اوپر، اپنے گھروالوں پر اپنی برادری پر، اپنے کنبہ پر اور اگر اللہ تعالیٰ اختیارات دے تو پورے ملک پر۔ یعنی جس قدر بھی ممکن ہوسکے، قرآنِ مجید کی تعلیم کو پھیلایا جائے اور نافذ کیا جائے۔ اور پھر اس کے ساتھ ساتھ یہ ہے کہ آپ جب اس کو اپنے اوپراور اپنے گھر والوں پر جاری و نافذ کرتے ہیں تو یہ نعمت آپ کی ذات تک محدود نہ رہے بلکہ اس کو پھیلایا جائے، فرمایا: ﴿وَأنْزَلْنَا إلَيْکَ الذِّکْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إلَيْهِمْ﴾ (سورۃ النحل: ۴۴) ” جو ہم نے آپ پر ذکر نازل کیا ہے، اس کو لوگوں میں آپ پھیلائیے“ جب تک کہ یہ سارے سلسلے اور سارے زینے ہم نہ اپنائیں گے، اس وقت تک تاریکیوں سے نور کی طرف نہیں آسکتے۔ اگر قرآنِ مجید کو صرف تبرک بنا کر رکھ لیں تو اس سے فہم حاصل نہیں ہوسکتا۔ فہم قرآن کاپہلا ذریعہ …قرآن کی تفسیر قرآن کے ذریعے قرآنِ مجید کو کس طرح سمجھا جائے؟ یہ بڑا اہم سوال ہے۔ قرآن مجید کو سمجھنے کے لئے سب سے پہلی بات یہ ہے کہ خود قرآنِ مجید ہی سے اس کو سمجھا جائے: القران یفسّر بعضہ بعضًا قرآن کا کچھ حصہ دوسرے حصے کی تفسیر کرتا ہے۔ اگر ایک جگہ پراِجمال ہے تو دوسری جگہ اس کی تفصیل ہے۔ اگر ایک جگہ آپ سمجھتے ہیں کہ بات ذہن میں واضح نہیں ہورہی ہے تو قرآن میں اسے دوسری جگہ کھول دیا گیا ہے۔ پہلی مثال : قرآنِ مجید میں آتا ہے: ﴿إهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ ، صِرَاطَ الَّذِيْنَ أنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلاَ الضَّآلِيْنَ﴾ دکھا ہم کو سیدھی راہ، راہ ان کی جن پر تو نے انعام کیا۔ اب یہ کون لوگ ہیں جن پر انعام کیا گیا ہے۔ سورۃ البقرہ میں مَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ کا بیان آیا ہے، سورۃ آل عمران میں ضَآلِّیْنَ کا۔ اور اس کے بعد سورۃ النساء میں جاکر کھولا ہے کہ أنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ سے کون لوگ مراد ہیں ، فرمایا: ﴿اُوْلٰئِکَ مَعَ الَّذِيْنَ أنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّيِْنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَآءِ وَالصّٰلِحِيْنَ وَحَسُنَ اُوْلٰئِکَ رَفِيْقًا﴾ (سورۃ النساء: ۶۹) یعنی انبیاء کرام علیہم السلام کی جماعت، صدیقین کی جماعت، شہداء کی جماعت جنہوں نے اپنی جانیں اللہ کی راہ میں قربان کیں اور اس طرح