کتاب: محدث شمارہ 247 - صفحہ 24
” ہم نے اس قرآنِ مجید کو اتارا ہے تاکہ آپ اسے ٹھہر ٹھہر کر اطمینان سے پڑھیں ۔“ تاریکیوں سے روشنی کی طرف نکلنے کے لئے پہلا زینہ یہ ہے کہ قرآنِ مجید کو بڑے اطمینان اور خشوع و خضوع کے ساتھ پڑھا جائے ،اس کی عظمت کو سامنے رکھتے ہوئے کہ یہ کلام الٰہی ہے اور اس سے ہم فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں ۔ ۲۔ فہم قران: دوسرا زینہ یہ ہے کہ محض قرآنِ مجید کا پڑھ لینا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اس کو سمجھنا بھی ضروری ہے ۔ جیسا کہ آج کل ہمارے ہاں رواج ہے یا بلادِ عجم میں دیگر مقامات پربھی یہ رواج ہے بلکہ اب تو عربوں میں بھی یہ مصیبت آگئی ہے کہ قرآنِ مجید پڑھتے ہیں ، سمجھتے نہیں ہیں ۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ جو عرب ہو اور عربی جانتا ہو، وہ قرآنِ مجید سمجھ بھی جائے۔ بلاتشبیہ عرض ہے کہ جس طرح بہت سے لوگ بانگ ِدرا یا غالب کا دیوان پڑھے ہوئے ہیں ، یہ اردو میں ہیں ، لیکن ہر اردو دان اس کو نہیں سمجھتا، سمجھنے کے لئے تو کاوش کی ضرورت ہے۔ عربوں کے اندر بھی اب یہ رواج ہے کہ وہ بس تبرکا ً پڑھ لیتے ہیں ۔ یہ تبرک کا فلسفہ جسے نظریہ کہئے یا خیال ، اس نے بھی ہمیں قرآن مجید سے بہت دور ڈال دیا ہے اور میں مضمون کے آخر میں ”موانع فہم قرآن“ کے سلسلہ میں بھی کچھ عرض کروں گا۔ اس موقع پر تفصیل سے بتاؤں گا کہ کون کون سی رکاوٹیں ہیں جنہوں نے ہمیں قرآنِ مجید سے دور کردیا ہے۔ جب تک یہ رکاوٹیں نہیں ہٹیں گی، اس وقت تک ہم قرآنِ مجید سے قریب نہیں ہوسکتے۔ خلاصہ یہ ہے کہ دوسرا زینہ ہے کہ قرآنِ مجید کو سمجھ کر پڑھا جائے جیسا کہ فرمایا: ﴿کِتٰبٌ أنْزَلْنٰهُ إلَيْکَ مُبَارَکٌ لِّيَدَّبَّرُوْا اٰيٰتِهِ وَلِيَتَذَکَّرَ أوْلُوْا الاَلْبَابِ﴾ ”ہم نے برکت والی کتاب اُتاری ہے تاکہ ا س کی آیات میں تدبر کرلیا جائے اور عقل والے اس سے نصیحت حاصل کریں “ (سورہ ص: ۲۹) یعنی تبرک کے یہ معنی نہیں ہیں کہ آدمی اس کو محض چوم اور چاٹ لے جیسا کہ آج کل لوگ کرتے ہیں ۔ ہمارے ہاں یہ چوما چاٹی ہی تبرک کی نشانی سمجھی جاتی ہے اور اس سے گویا ان کے خیال میں قرآنِ مجید کا حق ادا ہوجاتا ہے۔ ۳۔ عمل بالقران: قرآنِ مجید کو جب آپ نے سمجھ لیا تو پھر تیسرا زینہ ’عمل بالقرآن‘ ہے کہ قرآنِ مجید پر عمل کیا جائے جیسا کہ فرمایا: ﴿إنَّا أنْزَلْنَا إلَيْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا اَرَاکَ اللّٰهُ﴾ یعنی ہم نے اس کتاب کو اتارا ہے تاکہ آپ ان کے درمیان فیصلے کریں ۔ ان کے جھگڑوں کو چکائیں کہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں قرآنِ مجید کے احکام کو جاری کریں ۔ اور قرآن نے جن چیزوں کو حلال ٹھہرایا ہے، ان کو حلال سمجھیں اور جن چیزوں کو حرام ٹھہرایا ہے، انہیں حرام سمجھیں ۔ یادرہے کہ محض سمجھنا بھی کافی نہیں ہے جیسا کہ آج کل بہت سے مستشرقین ہیں جنہوں نے قرآنِ مجید کی