کتاب: محدث شمارہ 247 - صفحہ 23
توحید کو سمجھانے کے لئے یوں بیان کیا گیا ہے۔ انبیاءِ کرام علیہم السلام اور رسولِ اکرم کا یہ مقصد تھا کہ لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لائیں ۔ باِذن رَبِّہِم یہ ان کے ربّ کے اِذن سے ہے۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ اس بنا پر اس دعوت کو رسولِ اکرم نے قبول فرمایا اور پھر اس کو پیش کیا۔ اور وہ نور کیا ہے؟ وَإِلٰی صِرَاطِ الْعَزِيْزِ الْحَمِيْدِ اس کے راستہ کی طرف جو عزیز و غالب ہے جس پر کوئی دوسرا غالب نہیں آسکتا اور جو حمید اور حمدوالا ہے یعنی اپنی رحمتوں اور اپنی نعمتوں اور اِنعام و اکرام کی بنا پر حمد کا مستحق ہے ۔ اور جس کی حکمرانی تمام کائنات پر ہے اور جو کچھ بھی آسمانوں اور زمین میں ہے سب اس کے قبضہ میں ہے، اسی کے تابع ہے۔ اس کے بعد بتایا کہ پھر رکاوٹ کیاہے۔ روشنی سامنے آجائے تو لوگ اس کو کیوں نہیں مانتے، اس کی وجہ کیا ہے ؟ تو فرمایا: ﴿وَوَيْلٌ لِلْکٰفِرِيْنَ مِنْ عَذَابٍ شَدِيْدٍ ﴾جب کفر دلوں میں راسخ ہوجاتاہے اور انسان معاندانہ روش اختیار کرلیتا ہے تو پھر قبولِ حق کے دروازے اس کے لئے بندہوجاتے ہیں ۔ اور یہ کفر انسانوں کے دلوں میں ڈیرے کس طرح ڈالتا ہے، اس کی بڑی وجہ ہے: ﴿الَّذِيْنَ يَسْتَحِبُّوْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا عَلَی الآخِرَةِ﴾کہ لوگ دنیا کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں ۔ جب دنیا کو آخرت پر ترجیح دیں گے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ جب حق ان کے مفاد پر چوٹ لگائے گا اور ان کے فائدوں پر زَد پڑے گی تو ظاہر بات ہے کہ وہ حق کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں گے۔
دعوتِ حق اور دعوتِ قرآن قبول کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ لوگ دنیا کو ترجیح دیتے ہیں ۔ اسے آخرت کے مقابلہ میں پسند رکھتے ہیں اوراسی بنا پر وَيَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ صرف خود نہیں رکتے بلکہ دوسروں کو بھی روکتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اس دعوتِ حق کوبھی ۔
قرآنِ مجید کی دعوت کو بدنام کرنے کے لئے ان کا ایک رویہ یہ بھی ہے: وَيَبْغُوْنَهَا عِوَجًا کہ اس میں کجی تلاش کرتے ہیں ، کجی پائی نہیں جاتی بلکہ تلاش کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ کوئی چیز ایسی مل جائے جس سے لوگ مغالطہ میں پڑ جائیں اور قرآنِ مجید کی دعوت سے لوگ مستفید نہ ہوسکیں ، فرمایا: اولٰئِکَ فِي ضَلٰلٍ بَعِيْدٍ یہی لوگ گہری گمراہی میں ہیں ۔ یہاں تک ان آیات کی تفسیر ہے جن میں قرآنِ مجید کا مقصد ِنزول بیان کیا گیا ہے۔
۱۔ ترتیل قران: قرآنِ مجید کا مقصد ِنزول کیسے حاصل ہوسکتا ہے، اس کے لئے خود قرآنِ مجید سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے قرآنِ مجید پر انسان ایمان لائے، اس کی عظمت کا قائل ہو اور اس کو بڑے اطمینان کے ساتھ پڑھے جیسا کہ فرمایا: ﴿وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيْلًا﴾ اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر اطمینان سے پڑھئے۔ اسی طرح سورۃ الاسراء میں فرمایا: ﴿وَقُرْآنًا فَرَقْنٰه لِتَقْرَأهُ عَلَی النَّاسِ عَلٰی مُکْثٍ وَنَزَّلْنٰهُ تَنْزِيْلًا﴾