کتاب: محدث شمارہ 247 - صفحہ 20
طالبان یہ ذمہ داری اپنے سرلینے کی بجائے شریعت کورٹ اور پورے عالم اسلام پر اجتماعی طور پر یہ ذمہ داری ڈال دیتے۔ اس طرح انہیں عالم اسلام کی فی الجملہ حمایت کی صورت ہی اجتماعی ذمہ داری کی وجہ سے اس طرح کی سخت تنقید کا سامنا بھی نہ کرنا پڑتا۔ ایک عالمی شریعت کورٹ کے قیام کی وجہ سے دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بننے کے علاوہ مسلمانوں کے دیگر مسائل کے حل کیلئے بھی نتائج بڑے مثبت ثابت ہوتے۔ (iv) افغانستان جس بدترین معاشی بدحالی کے دور سے گزر رہا ہے۔ اس طرح کے سخت اِقدامات صرف تنہا اپنے سر لینے کے بعد افغان عوام کی مشکلات مزید گہمبیر ہوسکتی ہیں ۔ لہٰذا مصلحت یہی ہے کہ ایسے اقدامات کو فی الحال موٴخر کردیا جائے۔ حکمت ِعملی کے طور پر وسیع تر مفادات کے تحفظ کے لئے طالبان بت شکنی کے اس عمل کو موٴخر کرسکتے ہیں اور یہ تاخیر شرعی اعتبار سے بھی ناجائز نہیں ہوگی۔ (v) سعودی عرب اور پاکستان جیسے طالبان کے خیرخواہ ممالک بھی طالبان کی بت شکنی کی مہم کی تائید نہیں کر رہے۔ پاکستان کے وزیرداخلہ اس سلسلے میں باقاعدہ افغانستان کا دورہ بھی کرچکے ہیں ۔ سعودی عرب جس کے حکمرانوں اور عوام کا مزاج موٴحدانہ ہے، وہ بھی اس مسئلہ کے متعلق تقریباً سکوت کا رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں ۔ تاہم صوبہ قصیم کے ایک عالم دین کی طرف سے ذاتی حیثیت میں بت شکنی کے اس اقدام کی حمایت کی گئی ہے۔لیکن بعض مسلمان ممالک اور علماء نے واضح طور پر طالبان کے اِقدام کی مخالفت بھی کی ہے۔ ایسے حالات میں جب امت ِمسلمہ بھی فوری اقدام کی حمایت نہیں کر رہی، یہ معاملہ موٴخر کردینا چاہئے تھا۔ ہماری رائے ہے کہ پاکستان کی اسلام پسند جماعتیں اور علماء ایک مشترکہ سیمینار کے انعقاد کے ذریعے اس موضوع پر کھل کر اظہارِ خیال کریں اور اس کے بعد باہمی مشاورت کے ذریعے ایک متفقہ موقف اختیار کرکے پاکستان، طالبان اور عالم اسلام کی راہنمائی کا فریضہ ادا کریں ۔ طالبان کی طرف سے بت شکنی مہم کے مضمرات پاکستان اور عالم اسلام کے لئے بھی غور طلب ہیں ، اسے محض طالبان کا مسئلہ قرار دے کر نظر انداز کرنا امت ِمسلمہ کے اجتماعی مفادات سے روگردانی کرنے کے مترادف ہوگا۔٭ ٭