کتاب: محدث شمارہ 247 - صفحہ 19
مناسب سمجھتے ہیں کہ وہ ماضی کی ہر روایت کو توڑنے کو انقلابیت کی سب سے اہم دلیل سمجھتے ہیں ۔ مگر مجسّموں کے متعلق یہی روایت شکن طبقہ حد درجہ روایت پرست واقع ہوا ہے کیونکہ اس روایت کا تعلق اسلام سے ہے۔ دو ہزار سال پرانے بتوں سے ان کی محبت کے باوجود وہ ترقی پسند اور انقلابی بنے ہوئے ہیں ۔
ہماری رائے ان دونوں نقطہ ہائے نظر سے مختلف ہے۔ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ کسی مسلمان حکومت کے لئے نمایاں بت کی شکل میں کسی مجسمہ کا باقی رکھنا حرام ہے لہٰذا طالبان کی جانب سے بت شکنی کے اِقدام کو شریعت کی حمایت بھی حاصل ہے مگر حکمت اور مسلمانوں کی سیاسی اور ملی مصلحت کے وسیع تناظر میں اس کا جائز ہ لیا جائے تو طالبان کی جانب سے دنیا بھر میں مسلمانوں کے حالات بالخصوص غیر اِسلامی ملکوں میں مسلمان اقلیتوں اور انکے متبرکات کی توہین کے خطرات سے چشم پوشی کرکے فوری طور پر مجسّموں کوتوڑنے کا اقدام کئی پہلوؤں کی طرف غوروفکر کی دعوت دیتا ہے :
(i) آج کل دنیا ’عالمی بستی‘ کی حیثیت رکھتی ہے جس میں مختلف علاقوں میں بسنے والے مسلمانوں کے مفادات ایک دوسرے سے باہم مربوط ہیں ۔ آج کوئی بھی ملک اپنے گھر میں اس قدر خود مختار نہیں ہے کہ وہ دیگر ممالک کو نظر انداز کرنے کا متحمل ہوسکے۔ طالبان کے اس اقدام سے بعض ممالک مثلاً سری لنکا، جاپان، برما وغیرہ جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں ، وہاں مسلمانوں کو شدید ردّعمل اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی رائے میں جہاں ملی اور اِضطراری مصلحت ہو، وہاں شریعت کے بعض امور کی تنفیذ کو موٴخر کردیا جائے تو اسلامی شریعت سے اس کی گنجائش ملتی ہے۔
(ii) مسلمان ملکوں کی طرف سے طالبان کے مذکورہ اِقدام کی تائید کرنا بالخصوص پاکستان کے لئے خاصا مشکل امر ہے کیونکہ اگرعالم اسلام اور پاکستان اس پالیسی کی حمایت کرتا ہے تو اسرائیل کے زیر قبضہ مسجد اقصیٰ اور بھارت میں ہندوؤں کی طرف سے مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو مسمار کرنے کے خلاف احتجاج کرنے کی پوزیشن میں اُصولی طور پر نہیں رہے گا۔ بھارت کے تشدد پسند ہندوؤں کی طرف سے مسلمانوں کی مساجد مسمار کرنے کا اعلان بار بار کیا جارہا ہے بلکہ انہوں نے مسجد قوت الاسلام میں قرآن کریم کی توہین کر بھی ڈالی ہے جس کے خلاف پاکستان نے احتجاج بھی کیا ہے۔ پاکستان ان کی اس تشدد پسند پالیسی کے خلاف احتجاج اسی صورت میں کر سکتا ہے جب کہ وہ طالبان کے اقدام کی سرکاری طور پر حمایت نہ کرے۔
(iii) بعض اہم شخصیتوں بلکہ اِداروں کی طرف سے طالبان کو ایک بین الاقوامی شرعی عدالت کے قیام کی تجویز بھی دی گئی تہی۔ اس تجویز کے مطابق اگر عالم اسلام کے جید علماء پر مشتمل یہ عدالت تشکیل دے دی جاتی اوران سے درخواست کی جاتی کہ وہ شریعت ِاسلامیہ اور ملت ِاسلامیہ کے اجتماعی مفادات کی روشنی میں اس مسئلہ پر راہنمائی بہم پہنچائے تو یہ تجویز بے حد مناسب تھی۔ اگر اس کو مان لیا جاتا تو