کتاب: محدث شمارہ 247 - صفحہ 18
امریکہ اور اس کے حلیف ملکوں کا دباؤ قبول نہ کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ افغانستان غریب اور پسماندہ ہونے کے باوجود ایک آزاد ملک ہے۔ افغانستان ایک ایسا ملک ہے جوامریکہ، روس، فرانس، برطانیہ، جاپان اور بھارت کے سامنے آزادی اور خود داری کے جذبے سے کھڑا ہونے اور ان کی ڈکٹیشن لینے سے انکار کرنے کی جرأت رکھتا ہے“ (نوائے وقت:22/ مارچ2001ء) جماعت اسلامی کی فکر سے تعلق رکھنے والے ایک دانشور جناب متین فکری طالبان کی بت شکنی پر ان الفاظ میں تبصرہ کرتے ہیں : ”عصر حاضر میں طالبان کے فہم اسلام سے اختلاف ہوسکتا ہے، یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ جدید دور کے تقاضوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں اور بہت سے معاملات میں تنگ نظری کا ثبوت دے رہے ہیں لیکن یہ کریڈٹ بہرکیف انہیں جاتا ہے کہ وہ اسلام کے معاملہ میں احساسِ کمتری کا شکار نہیں ہیں …انہوں نے انتہائی بے سروسامانی اور کسمپرسی کے عالم میں ایسے ایسے بتوں کو ٹھوکر مار کر اوندہے منہ گرایا ہے کہ پوری دنیا حیرت سے تک رہی ہے۔ مثلاً امریکہ کی انا کا بت جسے پوری دنیا اپنا دیوتا سمجھ کر پوج رہی ہے، طالبان کی ٹھوکروں کی زد مین آکر کراہ رہا ہے۔ طالبان ایک تباہ حال افغانستان میں مٹی کے ڈہیر پر بیٹھے ہیں ، ان کے پاس اب کھونے کے لئے کچھ نہیں رہا لیکن دوسروں کی جھوٹی طاقت کا پول کھولنے اور ان کی تہذیب کا ملمع اتارنے کے لئے ان کے پاس بہت کچھ ہے“ ( ہفت روزہ ایشیا:28 /مارچ 2001ء) دوسرا طبقہ ان نام نہاد مسلمانوں پرمشتمل ہے جن کے فکری سرچشمے سیکولرازم اور سوشلزم ہیں ۔ وہ نہ صرف جہادی تنظیموں کے سخت مخالف ہیں بلکہ طالبان کو غیر مہذب، اَن پڑھ اور نیم وحشی بنا کر پیش کرتے ہیں ۔ پاکستان کاانگریزی پریس اور اُردو اخبارات میں لکھنے والے سیکولر صحافی بامیان میں مجسمہ شکنی کے خلاف طالبان کی مذمت میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں ۔ ان کا استدلال جس قدر بھی قوی ہو، چونکہ ان کی سوچ تعصب سے خالی نہیں ہے، اس لئے اس طبقہ کے خیالات کو درخور اعتنا نہیں سمجھا جاسکتا۔ ان میں سے بعض مضمون نگار طالبان کے اقدام کو اسلامی تاریخ سے حوالہ جات ڈہونڈکو مسترد کرنے کی سعی میں بھی مصروف ہیں ۔ ان کے اہم ترین دلائل میں مصر کا ابوالہول آتا ہے جس کا ذکر تفصیل سے مندرجہ بالا سطور میں کردیا گیا ہے۔ محمود غزنوی کی جانب سے افغانستان میں بتوں کو نہ توڑنے کو بھی دلیل بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔ ان میں سے بعض اس طرح کے سوالات بھی اٹھا رہے ہیں :” جب انتقامی طور پر اللہ تعالیٰ کو برا بھلا کہلانے سے بچنے کے لئے ان کے معبود باطل کو گالیاں دینا ممنوع ٹھہرا تو پھر ان کو توڑنا کیسے جائز ہوگا؟“…ایک صاحب اعتراض کرتے ہیں ” افغانستان کے اندر یہ شرک کے خلاف جہاد زمانہٴ امن میں کیا جارہا ہے“ ۔بہرحال سیکولر اور اشتراکی طبقہ کے بارے میں ہم یہاں یہ تبصرہ کرنا بھی