کتاب: محدث شمارہ 247 - صفحہ 17
حاصل ہوا اور لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہونے لگے تب نبی کریم نے مختلف صحابہ کوبت گرانے کی مہم پر روانہ کیا۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ غیر وں کے مقدس مقامات کے بارے میں کاروائی بہت سوچ سمجھ کرکرنے کی ضرورت ہے۔ طالبان کی بت شکنی …موجودہ حالات کے تناظر میں شریعت ِاسلامیہ میں بت شکنی کی واضح اور محکم تعلیمات کے باوجود طالبان کی موجودہ بت شکن مہم کے متعلق مختلف نقطہ ہائے نظر سامنے آئے ہیں ۔ امریکہ، یورپ اور بدھ مت کے پیروکار ممالک میں تو طالبان کے اس اِقدام کو عالمی تہذیب کے نوادرات کو صفحہٴ ہستی سے مٹانے کا وحشیانہ اِقدام کہاجارہا ہے مگرعالم اسلام میں بھی اس مسئلہ پر اختلافِ رائے سامنے آیا ہے۔ عالم اسلام کے خلاف امریکہ اور مغربی سامراجی طاقتوں کے استعماری ہتھکنڈوں کے تناظر میں اس مسئلہ کو دیکھنے والے مسلمانوں کی طرف سے طالبان کی بت شکنی کوایک آزاد اور خود مختار مسلمان ملک کی جرأت مندانہ پالیسی قرار دیا جارہا ہے۔ مسلمانوں کی طرف سے اس مسئلہ پر مختلف آراء پیش کی گئیں جو درج ذیل ہیں : دین پسندوں کا وہ پرجوش طبقہ جو مغرب اور اس کی تہذیب سے نفرت کرتا ہے، ا س نے بلاشبہ طالبان کے جرأت مندانہ اقدام کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ ان میں صرف روایتی علماء ہی نہیں ، دائیں بازو کی صحافیوں کی اچھی خاصی تعداد بھی شامل ہے۔ یہاں یہ ممکن تو نہیں کہ پاکستانی پریس میں شائع ہونے والے مضامین اور کالموں کا جامع سروے پیش کیاجائے، البتہ چند ایک مثالیں پیش کرنے سے اس طبقہ کی رائے کی نمائندگی پیش کی جاسکتی ہے۔ روزنامہ ’نوائے وقت‘ کے کالم نگار طاہر مسعود اپنے کالم ’افغانستان آزاد ہے!‘ میں طالبان کے موٴقف کی حمایت میں تحریر کرتے ہیں : ”ملاعمر جب یہ کہتے ہیں کہ گوتم بدھ کے یہ مجسّمے بت ہیں اور ان کا انہدام ہمارا مذہبی اور دینی فریضہ ہے تو وہ صحیح کہتے ہیں ۔ یہ بت کسی زمانے میں الٰہ رہے ہیں او ردین اسلام کے مطابق اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ۔ دنیا ان مجسّموں کو تہذیبی ورثہ قرار دیتی ہے۔ اگر یہ تہذیبی ورثہ ہیں بھی تو یہ افغانستان کا تہذیبی ورثہ نہیں اور وہاں کے حکمران اس تہذیبی ورثہ کو باطل قرار دے کر اس سے اپنا رشتہ منقطع کرنا چاہیں تو اس پر کسی کو اعتراض کا کیا حق ہے؟ مغربی دنیا کے معیارات دوہرے ہیں ۔ تہذیب کے ان پرستاروں کا حال یہ ہے کہ وہ بے جان پتھر کی مورتیوں پرفدا اور نثار ہیں اور بھوک و افلاس سے تڑپتے اور جیتے جاگتے انسانوں سے بیگانہ اور غافل ہیں ۔ وہ مجسّموں کے ٹوٹنے پر تو طوفان اٹھا دیتے ہیں لیکن مرتے ہوئے انسانوں کو دیکھ کر ان کے حلق سے کوئی کراہ نہیں نکلتی۔ میں تو اس معاملے کوایک نقطہ ٴ نگاہ سے دیکھتا ہوں ۔ ملا عمر نے ان مجسّموں او ربتوں کی تباہی پر