کتاب: محدث شمارہ 247 - صفحہ 13
کے طور پر کھولنے کے بارے میں پوچھا گیا، اوریہ بھی کہا گیا کہ یہ کنیسے دورِ فاروقی اور خلافت ِراشدہ میں موجود تھے اور انہوں نے ان کو منہدم نہیں کیا تو علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس نکتے کی وضاحت میں فرمایا :
”اوّل تو یہ بات ہی غلط ہے کہ قاہرہ میں دورِ فاروقی میں یہ کنیسے موجود تھے۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ قاہرہ کا شہر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے تین سو سال بعد، بغداد، بصرہ، کوفہ اور واسط کے بعد بسایا گیا۔
مسلمانوں کا اس امر پر اتفاق ہے کہ جو شہر مسلمان تعمیر کریں تو اہل ذمہ اس میں اپنا معبد خانہ تعمیر نہیں کرسکتے، جن شہروں کو مسلمان معاہدہ صلح کی صورت میں فتح کریں اور ان میں وہ سابقہ معبد خانوں کی حفاظت کا معاہدہ کریں اور مزید بنانے سے روک دیں تو اس مقام پر بھی مزیدمعبد خانے تعمیر نہیں کئے جاسکتے۔
اس طرح جن شہروں میں مسلمان رہتے ہوں اور ان میں مسلمانوں کی مساجد ہوں ، اسلامی حکومت کے لئے ضروری ہے کہ وہ وہاں شعائر کفر کو ظاہر کرنے (سے غیر مسلموں کو روکے، ہاں وہ اندرونِ معبد خانہ اپنے شعائر نمایاں کرسکتے ہیں ۔
غیر مسلموں کے بعد مصر کے جو حکمران آئے وہ غالی رافضہ (جو اپنے اماموں میں اللہ تعالیٰ کے حلول کا عقیدہ رکھتے) تھے جن کا دورِ حکومت دو سو سال سے زیادہ ہے، یہ لوگ بھی صرف ظاہر اً اسلام کے نام لیوا تھے اور اندر سے کفر محض چھپائے ہوئے تھے۔ ان روافض کے بارے میں مسلمان عوام، بادشاہ اور فقہاءِ اسلام کا اتفاق رہا ہے کہ یہ اسلام سے خارج ہیں اور ان سے لڑائی کی جاسکتی ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے تاتار کو مسلمانوں سے جنگ پر اُکسایا۔ ان غالی بادشاہوں کے وزرا کھبی یہودی رہے ہیں کبھی عیسائی، جنہوں نے ارضِ مصر میں بہت سے کنیسے تعمیر کئے۔ ان کے دور میں مصر میں عیسائیوں کی قوت کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے ساحل شام اپنے قبضہ میں لے لیا حتیٰ کہ نورالدین زنگی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے بازیاب کرایا۔ صلاح الدین رحمۃ اللہ علیہ کی جنگی کارروائیوں کے نتیجے میں آخر مصر 12 ویں صدی عیسوی میں مسلمانوں کے زیر نگیں آیا“
(اقتباسات فتاویٰ ابن تیمیہ: ج28، ص632 تا639)
علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول کہ دارالاسلام میں غیرمسلموں کے معبد خانے نہ ہوں ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی بنا پر ہے :
1۔ لاخصاء فى الاسلام ولا كنيسة ”اسلام میں خصی ہونے کی اجازت ہے نہ کنیسا کی“
(کتاب الاموال از ابو عبیدقاسم بن سلام، ص:137)
2۔ اسی طرح طاؤس رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
لا ينبغى بيت رحمة أن يكون عند بيت عذاب (ايضاً:ص138)
”جائز نہیں کہ بیت ِرحمت (مسجد) کے ساتہ بیت عذاب (غیر مسلموں کے معبد خانے) ہوں “
[1] سنا ہے کہ طالبان نے شاہراہوں کے بتوں کو تو گرایا ، اندرون معبد خانہ کاروائیاں نہیں کیں ۔