کتاب: محدث شمارہ 247 - صفحہ 12
روانہ فرماتے رہے اور جزیرہ عرب کے نامور بت خانوں کو آپ نے اپنی حیاتِ طیبہ میں منہدم کرا دیا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
كان رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم فى جنازة، فقال:أيكم ينطلق إلى المدينة فلا يدع بها وثنا إلاكسرہ ولا قبرا إلاسواہ ولا صورة إلا لطّخها؟ فقال رجل: أنا يارسول اللّٰه فانطلق فهاب أہل المدينة فرجع، فقال علي: أنا أنطلق يارسول اللّٰه، قال فَانْطَلِقْ فَانْطَلَقَ ثُمَّ رَجَعَ فقال: يارسول اللّٰه! لم أدع بها وثنا إلا كسرته ولا قبرا إلا سويته ولا صورة إلا لطختها، ثم قال الرسول صلی اللّٰه علیہ وسلم : من عاد إلى صَنعة شيىٴ من هذا فقد كفر بما أنزل على محمد رواہ أحمد بإسناد حسن
(مسند احمد:ج2، ص87… مجمع الزوائد: ج5، ص173…فقہ السنہ:3/499)
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک جنازہ میں تھے تو آپ نے فرمایا کہ تم میں کون آدمی ہے جو مدینہ میں جائے وہاں کوئی بت (وثن) نہ چھوڑے مگر اس کو توڑ دے، کسی اونچی قبر کو نہ چھوڑے مگر اس کو زمین سے ملا دے، کوئی تصویر نہ دیکھے مگر اس کو مٹا ڈالے۔ ایک آدمی نے کہا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں یہ کام کروں گا۔ یہ آدمی چلا گیا لیکن اہل مدینہ نے اس کو اس کام سے ڈرایا تو وہ گھبرا کر واپس لوٹ آیا۔ تب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں یہ کام کرتا ہوں ۔ آپ نے کہا: جاؤ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ گئے اور کچھ دیر بعد واپس لوٹ آئے اور کہا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے اس میں کوئی وثن نہیں چھوڑا اور نہ کوئی اونچی قبر مگر اسے زمین سے برابر کردیا، کوئی تصویر نہ چھوڑی مگر اس کو مٹا ڈالا ہے۔ تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے بھی ایسے برے کام پھر کئے تو گویا اس نے شریعت ِمحمدی سے کفر کیا“
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں ابو الہیاج اسدی کو خود اس کام کے لئے مامور کیا اور فرمایا:
ألا أبعثك على ما بعثنى عليه رسول اللّٰه صلی اللہ علیہ وسلم ؟ ألاَّ تدع تمثالا إلا طمسته، ولا قبرا مشرفاً إلا سويته
(صحیح مسلم، باب الأمربتسوية القبر: حدیث 969)
” کیا میں تجھے اس کام کے لئے نہ بھیجوں جس کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مامور فرمایا تھا ، وہ یہ کہ توکوئی تمثال (مجسمہ) نہ چھوڑ مگر اس کو مٹا ڈال اور کوئی عالیشان قبر نہ چھوڑ مگر اس کو برابر کردے“
سرزمین اسلام میں بتوں کو باقی رکھنا اور نمایاں کرنا
اسلامی شریعت کی روشنی میں یہ بات تو بخوبی پایہٴ ثبوت کو پہنچ چکی کہ اسلام میں بتوں کا کوئی جواز نہیں ملتا اورمسلمانوں کو بتوں کے باقی رکھنے سے منع فرمایا گیا ہے۔ جہاں تک اسلامی حکومت میں غیر مسلموں کا تعلق ہے کہ انہیں بت پرستی کی کس حد تک اجازت دی جاسکتی ہے یا غیر مذاہب کے عبادت خانوں کے بارے میں اسلام کیا نقطہ نظر رکھتا ہے۔ تو اس بارے میں چند نکات درج ذیل ہیں ۔
شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ سے قاہرہ کے کنیساؤں (گرجاؤں ) کو عیسائیوں کے لئے عبادت گاہ