کتاب: محدث شمارہ 247 - صفحہ 10
اس قدر اونچے تھے کہ آپ کی لاٹھی وہاں تک نہیں پہنچ سکتی تھی چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کش کی کہ آپ میرے کندہوں پر سوار ہو کر بلند ہوجائیں اور بت گرا دیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” علی رضی اللہ عنہ ! تم نبوت کا بوجہ نہیں اٹھا سکتے، آؤ میں تمہیں بلند کرتا ہوں اور تم انہیں گرا دو“
یاد رہے کہ ان بتوں میں آپ کے جدامجد حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے بت بھی تھے۔ (الرحیق المختوم اردو: ص252) اگر اسلام میں بتوں کا کوئی جواز ہوتا تو آپ کائنات کی مقبول ترین ہستی حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بت ضرور بچا لیتے، لیکن لمحے بھر کو بھی ایسا شائبہ وہاں پیدا نہ ہوا۔ اور آپ کعبہ کو بتوں سے پاک صاف کرکے نکلے۔
اگر بتوں کی عبادت ہی ان کو گرانے کا سبب ہوتی تو مکہ میں غلبہ اسلام کے بعد صنم پرستی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی تھی۔ اس امکان کے باوجود آپ کا بتوں کو گرا دینے کا مطلب اس کے علاوہ اور کیا ہے کہ اسلام میں بتوں کے لئے اس طرح کی کوئی تفریق نہیں کہ اس کی عبادت کی جاتی ہے یا نہیں ؟
ممتاز سیرت نگار ابن ہشام رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب میں باسند بیان کرتے ہیں اور صحیح مسلم میں بھی موجود ہے کہ
”فتح مکہ کے روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم داخل ہوئے تو آپ اونٹنی پر سوار تھے، اس پر بیٹھے بیٹھے طواف کیا ، بیت اللہ کے چاروں طرف سیسے سے جمے ہوئے بت نصب تھے۔ آپ کے دست ِمبارک میں ایک لکڑی تھی، آپ بتوں کی طرف اشارہ کرتے جاتے اور فرماتے جاتے :
﴿جَاءَ الْحَقُّ وَزَهقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهوْقًا﴾”حق آگیا اور باطل چلا گیا، بے شک باطل زائل ہونے اور جانے والا ہی تھا“
چنانچہ ہر بت جس کی طرف آپ اشارہ کرتے جاتے وہ گدی کے بل اور جس کی گدی کی طرف اشارہ کرتے وہ چہرے کے بل خود بخود گرتا جاتا تھا، یہاں تک کہ کوئی بت بھی باقی نہ رہا جو گر نہ گیا ہو“ (صحیح مسلم، باب إزالة الأصنام من حول الكعبة: حدیث 4601 اور سیرت ابن ہشام مترجم از مولانا غلام رسول مہر، ص 484)
حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ سیرتِ ابن ہشام رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ
”فتح مکہ کے روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کے اندر داخل ہوئے تو اس میں ملائکہ وغیرہ کی تصاویر دیکھیں ، ابراہیم کی تصویر دیکھی، ان کے ہاتھ میں فال کے تیر تھے۔ آپ نے فرمایا: اللہ انہیں غارت کرے، انہوں نے ہمارے جدامجد کو فال گر بنا دیا ، ابراہیم کو فال گیری سے کیا نسبت؟ ابراہیم نہ یہودی تھے، نہ نصرانی لیکن سیدہے راستے والے مسلمان تھے اور مشرکوں سے نہ تھے پہر آپ کے حکم سے سب تصاویر مٹا دی گئیں “
(سیرت النبی ترجمہ مولانا ہدایت اللہ ندوی: ج2، ص396)
اس کے بعد امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت بیان کرتے ہیں کہ کعبہ کے اندر تصویریں منقش تھیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے مٹانے کا حکم دیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کپڑا تر کرکے ان کومٹا دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعد میں اندر آئے تو اس میں کوئی تصویر نہ تھی۔“