کتاب: محدث شمارہ 246 - صفحہ 99
تو اس نے کہا۔ خدا تعالیٰ کو ایک جانو، اس کا کوئی شریک نہیں، بتوں کی عبادت چھوڑ دو، کسی کو تکلیف نہ دو، برے کام نہ کرو اور خدا کی عبادت کرو اور خلق خدا کی خدمت کرو۔ آپ نے فرمایا:کچھ اس سے آگے بھی بتاؤ تو اس نے کہا: میں اس سے آگے کچھ نہیں جانتا۔ تو آپ نے فرمایا: تو نے میرے دل کو مطمئن نہیں کیا۔ میں خود مکہ مکرمہ جاکر حالات دریافت کروں گا۔ چنانچہ کچھ زادِ راہ لے کر مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ مکہ مکرمہ پہنچ کرپتہ چلا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف پورے قریش میں غم و غصہ کی ایک لہر دوڑ چکی ہے۔ حالات اتنے نازک تھے کہ آپ کے متعلق کسی سے کچھ پوچھنا اپنے آپ کو مصیبت میں ڈالنے کے مترادف تھا۔ چنانچہ آپ نے کسی سے پوچھنا مناسب نہ سمجھا اور خانہ کعبہ میں آکر بیٹھ رہے کہ شائد کوئی ایسی صورت پیدا ہوجائے کہ خود بخود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوجائے اور کسی مصیبت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔سارا دن گزر گیا لیکن مقصود کو نہ پہنچ سکے۔ چونکہ بنو ہاشم خانہ کعبہ کے متولی تھے اور اس وقت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابوطالب اس منصب پر فائز تھے لہٰذا رات کو خانہ کعبہ کا دروازہ بند کرنے کے لئے حضرت علی رضی اللہ عنہ سب سے پیچھے رہ گئے۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک مسافر بیٹھا ہے۔ اس سے پوچھا: تم مسافر ہو؟ ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میرے ساتھ چلو۔ چنانچہ آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ چلے گئے۔ رات کو کھانا اور ٹھکانا دونوں مل گئے۔ صبح پھر خانہ کعبہ میں آگئے۔ پھر سارا دن گزر گیا لیکن گوہر مراد ہاتھ نہ آیا۔ دوسری رات پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ وہی مسافر آج بھی بیٹھا ہے۔ پوچھا کیا مسافر کو اپنی منزل نہ ملی؟ کہنے لگے: نہیں ۔ وہ پھر ان کو اپنے ساتھ لے گئے اور حسب سابق مہمان کا حق ادا کیا لیکن دونوں راتیں بالکل خاموشی سے گزریں ۔ نہ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا کہ تم کو ن ہو، کہاں سے اورکس کام سے آئے ہو اور نہ ہی حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے ان سے کچھ کہا۔ تیسرے روز پھر خانہ کعبہ میں چلے آئے اور پھر سارا دن گزر گیا۔ تیسری رات حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ وہی مسافر بیٹھا ہے، کہنے لگے: کیا ابھی بھی منزل کانشان نہیں ملا؟کہنے لگے: نہیں ۔ تو آپ نے فرمایا:آؤ پھر میرے ساتھ چلو، چنانچہ وہ آپ ان کے پیچھے ہو لئے۔ راستہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا: آپ کس مقصد کے لئے یہاں آئے ہیں ؟ تو حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا :اگر راز داری کا وعدہ کرو تو عرض کروں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا:وعدہ ہی سمجھو۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا:’’میں نے سنا تھا کہ مکہ میں ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیاہے، ان کا پتہ کرنے آیا ہوں، اگر آپ کچھ جانتے ہوں تو میری راہنمائی کریں ‘‘۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ان کو بڑی اچھی طرح جانتاہوں، آپ میرے ساتھ آجائیں، میں آپ کو ان کی خدمت میں پہنچا