کتاب: محدث شمارہ 246 - صفحہ 97
ہے کہ اَفواہیں پھیلانے میں اِن تمام برائیوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اسلام کا اَخلاقی ضابطہ تو ایسے کردار کی تعمیر و تشکیل کرتا ہے جس کی بنیاد صداقت، امانت و دیانت، باہمی اِخلاص و محبت، اِعتماد اور عدل و انصاف پر ہوتی ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق ہر انسان فطرتاً اچھا ہے، بدگمانی گناہ ہے۔ حدیث ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہے کہ ’’اہل ایمان کے بارے میں اچھا گمان رکھو،بلاوجہ تجسس اور عیب جوئی بھی جائز نہیں ہے۔‘‘ ہماری ذمہ داریاں اوپر کی بحث اور گفتگو سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ قرآن و سنت کی رو سے افواہیں پھیلانا یا بے بنیاد خبریں شائع کرنا قطعاً جائز نہیں۔ اس قسم کی حرکتوں میں جو لوگ ملوث ہوں گے وہ جرم میں ملوث تصور کئے جائیں گے۔ ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی جاسکتی ہے۔ قرآن و سنت میں جہاں اس قسم کی مذموم حرکتوں پر پابندی لگا دی گئی ہے وہیں مملکت کے عام اور ذمہ دار شہریوں پر بھی یہ فریضہ عائد کیا گیا ہے کہ وہ بھی افواہوں کی روک تھام میں اپنی ذمہ داریاں پوری کریں، افواہیں پھیلانے والوں پر کڑی نظر رکھیں۔ ان کی پھیلائی ہوئی باتوں کو خود بیان کرکے نہ پھیلائیں اور اگر کوئی ایسی خبر جس کا تعلق ملک و ملت کی سلامتی سے ہے تو فوری طور پر اَرباب ِحل و عقد کو مطلع کرکے اَفواہوں کی روک تھام اور ملک و ملت کی سلامتی کے معاملات میں اُن کے ساتھ پورا پورا تعاون کریں۔ اَفواہوں کی روک تھام میں حکومت کا کردار بھی بہت اہم ہے۔ خاص طور پر نشرواشاعت کے وہ ادارے جو حکومت کی زیرنگرانی کام کر رہے ہیں۔مثلاً ریڈیو یا ٹیلیویژن وغیرہ۔ اس سلسلہ میں سب سے اہم کام یہ کرنا ہوگا کہ یہ ادارے عوام میں اپنا اعتماد پیدا کریں تاکہ لوگ ان اداروں کی مہیا کردہ اطلاعات پر بھروسہ کرسکیں۔ یہ ادارے کردار سازی کا کام کریں، کردار کشی کے لئے استعمال نہ ہوں۔ اِن اداروں پر اعتماد بحال ہونے سے افواہ سازوں کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ ہماری ملکی اور ملی صحافت پر بھی بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ ہمارے بعض اخبارات کا طرزِ عمل تو بہت ہی غیر محتاط ہوتا ہے، وہ غیر مصدقہ اور بے بنیاد خبریں شائع کرکے معاشرہ اور مملکت دونوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ اخبارات کو چاہئے کہ وہ ایسی خبریں جن کا براہِ راست اثر ملک و ملت پر پڑتا ہو، جن سے ہمارے ملی ادارے متاثر ہوتے ہوں یا افراد کے کردار پر ان کا اثر پڑتا ہو، بلا تحقیق شائع نہ کیا کریں بلکہ اچھی طرح چھان بین کرکے پورا اطمینان کر لینے کے بعد بھی یہ جائزہ لیں کہ کیا اسے شائع کرنا چاہئے یا نہیں؟ انہیں صرف ایسی چیزوں کی اشاعت کرنا چاہئے جن کی اشاعت واقعی ضروری ہو اور ان کی اشاعت سے منفی اثرات معاشرہ میں نہ پیدا ہوتے ہوں۔ اگر ہمارے اخبارات ان آیات ِقرآنی اور احادیث ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں ایک ضابطہ ا خلاق و عمل طے کر لیں تو یقینا مثبت اور صحت مند صحافت بھی اَفواہ سازی کے خلاف اپنا کردار ادا کرسکے گی۔