کتاب: محدث شمارہ 246 - صفحہ 96
’’جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ متشابہات کے پیچھے پڑے رہتے ہیں تاکہ فتنہ برپا کریں اور آیات ِمتشابہات کی(اپنی خواہش کے مطابق)تاویلیں کریں‘‘ (سورۃ آل عمران ۳/۷) فتنہ پھیلانے کی یہ مذموم کوشش یہودیوں اور منافقین کی جانب سے تھی، جس کی قرآنِ حکیم نے مذمت کی ہے۔ قرآن حکیم فتنہ کو قتل سے بھی بڑا جرم قرار دیتا ہے، اس لئے کہ فتنہ کی تباہ کاریاں بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ یہ تو قوموں کو لے ڈوبتا ہے…سورۃ البقرہ میں ارشاد ہے: ﴿ وَالْفِتْنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ﴾ ’’اور فتنہ قتل سے کہیں بڑھ کر ہے‘‘ (سورۃ البقرہ :۲/۱۹۱) قرآنِ کریم نے فرعون کے بارے میں بتایا کہ وہ بہت غرور میں مبتلا تھا، اپنے اقتدار کی خاطر لوگوں میں نسلی امتیاز پیدا کرتا تھا او ران میں پھوٹ ڈال کر ان پر حکومت کرتا تھا: ﴿اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلاَ فِیْ الْاَرْضِ وَجَعَلَ اَھْلَھَا شِیَعًا یَّسْتَضْعِفُ طَآئِفَۃً مِّنْھُمْ یُذَبِّحُ اَبْنَائَ ھُمْ وَیَسْتَحْیِیْ نِسَائَ ھُمْ اِنَّہٗ کَانَ مِنَ المُفْسِدِیْنَ﴾ ’’فرعون نے زمین پر بہت سر اُٹھا رکھا تھا۔ اس نے وہاں کے باشندوں کو فرقوں میں تقسیم کر دیا تھا اور ایک گروہ کو (یہاں تک) کمزور کردیا تھا کہ ان کے بیٹوں کو ذبح کر دیتا اور لڑکیوں کو زندہ رکھتا۔ یقینا وہ فساد برپا کرنے والوں میں تھا‘‘ (سورۃ القصص ۲۸/۴) اس آیت ِمبارکہ میں فرعون کے بھیانک جرائم کو فساد سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اوپر ہم نے منافقین کی تخریبی حرکتوں کو بیان کیا ہے جس میں افواہیں اور جھوٹی خبریں پھیلانا بھی شامل ہے۔ سورۃ البقرہ میں منافقین کی ان حرکتوں کو فساد سے تعبیرکیا گیا ہے: ﴿وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ لاَ تُفْسِدُوْا فِیْ الْاَرْضِ قَالُوْا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ اَلاَ اِنَّھُمْ ھُمُ الْمُفْسِدُوْنَ وَلٰکِنْ لاَّ یَشْعُرُوْنَ﴾ ’’اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ پھیلاؤ تو کہتے ہیں کہ ہم تو اِصلاح کر رہے ہیں… خبردار ! یہی لوگ فسادی ہیں مگر اِنہیں شعور نہیں‘‘ (سورۃ البقرہ :۲/۱۱،۱۲) فساد اللہ تعالیٰ کو ہرگز پسند نہیں: ﴿ وَاللّٰہُ لاَ یُحِبُّ الْفَسَادَ﴾ ’’اور اللہ تعالیٰ فتنہ انگیزی کو پسند نہیں کرتا‘‘ (البقرہ :۲/۲۰۵) اَفواہیں پھیلانا … ایک مذموم حرکت اَخلاقی نقطہ ٔنگاہ سے غور کریں تو بھی اَفواہیں پھیلانا بہت گھٹیا اور مذموم حرکت ہے، اس لئے کہ غیبت کرنا، تہمتیں لگانا، جھوٹ بولنا، لوگوں کی کردار کشی کرنا یا لوگوں کی تحقیر و تذلیل کرنا نہ صرف گناہِ کبیرہ ہیں بلکہ وہ برائیاں ہیں جنہیں تمام اَخلاقی نظام غیر اَخلاقی حرکت تصور کرکے ردّ کرتے ہیں۔ ظاہر