کتاب: محدث شمارہ 246 - صفحہ 95
راز کی بات ہے جو اُنہیں معلوم ہوئی ہے۔ اس طرح ذہنی اور نفسیاتی طور پر راہ ہموار کی جاتی تھی تاکہ جب کوئی افواہ پھیلائی جائے تو لوگ اس پر یقین کر لیں۔ یہ لوگ خفیہ اجتماعات بھی کرتے تھے جس کا مقصد اپنی تخریبی سرگرمیوں کا جائزہ لینا اور ان کو عملی شکل دینے کی تدابیر کرنا ہوتا تھا۔ قرآنِ حکیم نے منافقین کے خفیہ اجتماعات کے تین مقاصد کا ذکر کیا ہے۔ یہ لوگ گناہ کے کاموں، ظلم و زیادتی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کے لئے اس قسم کے اجلاس کرتے تھے۔ منافقین کے اس طرزِعمل کی وجہ سے قرآنِ حکیم نے منافقین پر سرگوشیاں کرنے اور راز داری کے انداز میں گفتگو کرنے پر پابندی لگا دی تاکہ یہ لوگ عام لوگوں میں کوئی غلط تاثر پیدا کرنے میں کامیاب نہ ہوں: ﴿ اَلَمْ تَرَاِلَیٰ الَّذِیْنَ نُھُوْا عَنِ النَّجْوَیٰ ثُمَّ یَعُوْدُوْنَ لِمَا نُھُوْا عَنْہٗ وَیَتَنَاجَوْنَ بِالْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِیَۃِ الرَّسُوْلِ﴾ ’’کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اُن لوگوں کو جنہیں سرگوشیاں کرنے سے منع کر دیا گیا تھا، پھر بھی وہی حرکت کئے جاتے ہیں جس سے منع کیا گیا تھا۔ یہ لوگ چھپ چھپ کر گناہ، ظلم اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی باتیں کرتے ہیں‘‘ (سورۃ المجادلہ :۵۸/۸) یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ سرگوشیاں کرنا یا تنہائی میں ملنا فی نفسہٖ ایک مباح عمل ہے لیکن اس جواز کا ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہوئے منافقین نے ملت ِاسلامیہ اور مرکز کو نقصان پہچانے کے لئے اسے استعمال کرنا شروع کر دیا تھا، ا س لئے اس مباح عمل پر ہی پابندی لگا دی گئی۔ ہاں اگر ان کے اجتماعات اور رازدارانہ باتیں تعمیری مقاصد کے لئے ہوتیں تو یہ عمل مستحسن قرار پاتا۔ تمام تر دارومدار ان لوگوں کے کردار پر ہے جو اس عمل میں مصروف ہوں اور ان حالات پر منحصر ہے جن حالات میں یہ باتیں کی جارہی ہوں۔ افواہیں … فتنہ و فساد کا سبب افواہوں اور بے بنیاد خبروں کا ایک اور پہلو سے بھی جائزہ لیا جاسکتا ہے، وہ یہ کہ افواہیں اور بے بنیاد خبریں بسا اوقات مختلف طبقات کے درمیان منافرت پھیلانے کا ذریعہ ہوتی ہیں، باہمی رنجشیں پیدا کرتی ہیں جن کی وجہ سے لڑائی جھگڑوں کی بھی نوبت آجاتی ہے اور نتیجہ قتل و غارت کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ قرآنِ کریم نے ان تمام صورتوں کو فتنہ و فساد سے تعبیر کیا ہے۔ دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں یہودیوں اور منافقین کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ وہ کسی نہ کسی طرح ملت ِاسلامیہ میں فتنہ و فساد برپا کریں۔ اس کے لئے وہ ہر حربہ استعمال کرتے تھے۔ یہ لوگ یہاں تک جسارت کرتے تھے کہ قرآن حکیم کے مشکل مقامات اور آیات ِمتشابہات کی اپنی طرف سے من گھڑت تاویلیں کرتے تاکہ لوگوں کو غلط مفہوم بتا کر دین سے برگشتہ کرسکیں یا کم از کم دلوں میں شکوک و شبہات پیدا کرسکیں: ﴿ فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَاتَشَابَہَ مِنْہُ ابْتِغَائَ الفِتْنَۃِ وَابْتِغَائَ تَاْوِیْلِہٖ﴾