کتاب: محدث شمارہ 246 - صفحہ 94
مفسرین نے اس آیت کا جو پس منظر بیان کیا ہے وہ بھی اس مسئلہ کی وضاحت کرتا ہے۔ عہد ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بعض لوگوں نے قبیلہ بنی مصطلق کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مدینہ منورہ کے مسلمانوں کو غلط اطلاع دی تھی کہ اس قبیلہ نے مرکز کے خلاف بغاوت کردی ہے اور یہ کہ انہوں نے مرکز کو زکوٰۃ ادا کرنے سے انکار کردیا ہے۔ لیکن مدینہ منورہ کی جانب سے کسی کارروائی سے قبل خود اس قبیلہ کے سردار حارث بن ضرار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے تو انہوں نے تمام حقیقت بیان کی اور بتایا کہ قبیلہ کے کسی فرد نے بھی زکوۃ کی ادائیگی سے انکار نہیں کیا، نہ ہی مرکز کی جانب سے بھیجے گئے محصل کو کسی نے قتل کی دھمکی دی ہے۔ دراصل قبیلہ بنومصطلق سے مخالفت رکھنے والے بعض افراد نے غلط اطلاعات دے کر اور اسے پھیلا کر مرکز کو اس قبیلہ کے خلاف کارروائی پر اُبھارنے کی کوشش کی تھی۔ اصل حقائق معلوم ہونے پر مرکز نے بنومصطلق کے خلاف کاروائی کا ارادہ موقوف کردیا۔ قرآنِ حکیم نے اس موقع پر یہ حکم دیا کہ اس قسم کی کوئی خبر یا اطلاع جب بھی ملے تو ارباب ِحل و عقد کو چاہئے کہ اس کی خوب تحقیق کر لیا کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ حالات سے مغلوب ہو کر یا جذبات میں آکر کسی بے گناہ طبقہ کے خلاف اقدام کر بیٹھیں جس پر بعد میں پچھتانا پڑے۔ ہم اوپر بیان کرچکے ہیں کہ عہد ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں منافقین اور یہودی افواہیں پھیلانے اور اُمت مسلمہ کے مختلف طبقات کے درمیان منافرت پیداکرنے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔ اس کے لئے وہ ہر حربہ استعمال کرتے تھے۔ عبداللہ بن اُبی نے اَنصار و مہاجرین کے درمیان اِختلاف پیدا کرنے کے لئے علاقائی تعصب بھی اُبھارنے کی کوشش کی۔ اَنصار و مہاجرین کے درمیان خوشگوار تعلقات اور اسلامی اُخوت و محبت نے مدینہ منورہ میں جو وِحدت پیدا کردی تھی، اس میں عبداللہ بن اُبی کو اپنی سیاست چمکانے کا موقع نہیں مل رہا تھا۔ وہ باہمی نفرت پیدا کرکے اپنی قیادت کو آگے بڑھانا چاہتا تھا۔ غزوہ بنی مصطلق سے واپسی پر عبداللہ بن اُبی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مہاجرین کے بارے میں یہ دھمکی آمیز الفاظ کہے تھے ﴿ لَئِنْ رَّجَعْنَا اِلَیٰ الْمَدِیْنَۃِ لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّمِنْھَا الْاَذَلَّ﴾ (المنافقون: ۶۳/۸) ’’اگر ہم مدینہ لوٹ جائیں تو وہاں سے عزت والے لوگ بے حیثیت لوگوں کو نکال باہر کرینگے ‘‘ رسول ُاللہ صلی اللہ علیہ وسلم اِن منافقین کی حرکتوں پر کڑی نظر رکھتے تھے اور اِن کی تمام تخریبی حرکات کو اپنی حکمت ِعملی اور بصیرت سے غیر مؤثر بناتے رہتے تھے۔ منافقین کا ایک انداز یہ بھی تھا کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے اور سرگوشی کے انداز میں باتیں کرتے، ان سرگوشیوں کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ عام لوگوں کو یہ تاثر دیا جائے کہ ان کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خصوصی اور قریبی تعلقات ہیں۔ یہ تاثر پیدا کرکے وہ جو بات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے منسوب کرکے پھیلائیں گے، عام لوگ اسے مان لیں گے۔ اسی طرح عام جگہوں پر کھڑے ہو کر یہ لوگ سرگوشی کے انداز میں گفتگو کرتے تھے جس کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ لوگوں کو یہ تاثر دیا جائے کہ کوئی خاص با ت ہے جس کا صرف اُن لوگوں کو علم ہے یا شاید کوئی