کتاب: محدث شمارہ 246 - صفحہ 93
سے پڑھئے، جو نہ صرف یہ کہ بے بنیاد باتوں کے پیچھے نہ لگنے کا حکم دے رہی ہے بلکہ ذمہ داری کا شعور بھی بیدار کر رہی ہے۔ ﴿ وَلاَ تَقْفُ مُا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اُوْلٰئِکَ کَانَ عَنْہٗ مَسْئُوْلًا﴾ (سورہ الاسراء ۱۷:۳۶) ’’جس چیز کا تمہیں علم نہ ہو اسکے پیچھے نہ پڑو، یقینا کان، آنکھ اور دل سب سے باز پرس ہوگی ‘‘ یعنی جس چیز کے بارے میں تمہیں کامل اطمینان اور پوری طرح علم نہ ہو تو محض اٹکل اور گمان کی بنا پر اس کے پیچھے نہ لگ جایا کرو۔ تہمتیں، بدگمانیاں اور اَفواہیں سب ایک ہی قبیل کی برائیاں ہیں۔ ایک اچھے اور مہذب معاشرہ کو ان برائیوں سے پاک ہونا چاہئے۔ اسلام جو معاشرہ قائم کرنا چاہتا ہے اس کی بنیاد باہمی تعاون، اعتماد اور حسن ظن پر ہوتی ہے۔ لہٰذا کسی معاملہ میں کوئی ایسی بات زبان سے نہیں نکالنی چاہئے جو محض اَفواہ پر مبنی ہو اور نہ بدگمانی کی وجہ سے کسی کے بارے میں کوئی غلط بات کہی جائے۔ جس سے کسی فرد، جماعت، اِدارہ یا طبقہ کی عزت و شہرت کو نقصان پہنچتا ہو، یا کچھ لوگوں کی دل آزاری ہوتی ہو۔ سورۃ الحجرات میں امت ِمسلمہ کی اجتماعی اور شہری زندگی کے لئے ایک جامع ضابطہ اخلاق پیش کیا گیا ہے۔ اس سورہ میں ان تمام برائیوں سے اجتناب کی تاکید کی گئی ہے جو اجتماعی زندگی میں فتنہ و فساد برپا کرتی ہیں اور جن کی وجہ سے لوگوں کے باہمی تعلقات خراب ہوتے اور رنجشیں پیدا ہوتی ہیں۔ مثلاً ایک دوسرے کا مذاق اڑانا، طعن و تشنیع کرنا، لوگوں پر پھبتیاں کسنا یا ان کے خلاف بدگمانیاں پیدا کرنا، لوگوں کی غیبت کرنا، عیب جوئی کرنا وغیرہ۔ یہ سب وہ اَفعال ہیں جو صراحتاً گناہ ہیں اور معاشرہ میں بگاڑ اور فساد پیدا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان تمام برائیوں کو نام بنام ذکر کرکے انہیں حرام قرار دیا ہے۔ موضوع کی مناسبت سے یہاں سورۃ الحجرات کی ایک آیت خاص طور پر قابل توجہ ہے: ﴿ یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اِنْ جَائَ کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَیَّنُوْا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًا بِجَھَالَۃٍ فَتُصْبِحُوْا عَلَیٰ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِیْنَ﴾ (الحجرات ۴۹:۶) ’’اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی اہم خبر لائے تو خوب تحقیق کر لیا کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانستہ نقصان پہنچا بیٹھو، پھر تمہیں اپنے کئے پر پچھتانا پڑے‘‘ اس آیت ِمبارکہ میں واضح طور پر حکم دیا گیا ہے کہ اگر کوئی خبر یا اطلاع ناقابل اعتماد ذرائع سے آئے تو بغیر تحقیق و تصدیق اسے مِن وعَن نہیں ماننا چاہئے بلکہ خوب اچھی طرح اس کی تحقیق کر لینی چاہئے کہ اس خبر میں واقعی کوئی صداقت ہے؟ بغیر کسی تحقیق اور بغیر کامل اطمینان کے اگر کسی ردّ عمل کا مظاہرہ کرو گے تو اس کا نتیجہ سوائے رسوائی اور ذلت کے کچھ نہیں ہوگا۔