کتاب: محدث شمارہ 246 - صفحہ 92
کرتے تھے اور کبھی کسی واقعی خطرے کو چھپانے کے لئے اور غلط قسم کا اطمینان پیدا کرنے کی خاطر بے بنیاد اور مبالغہ آمیز خبریں پھیلاتے ۔ قرآنِ کریم نے اس کا سد ِباب کرنے کے لئے مسلمانوں کو حکم دیا کہ جب اس قسم کی غیر مصدقہ خبر (افواہ) پہنچے تو اسے ہر گز لوگوں میں نہ پھیلایا جائے بلکہ اس قسم کی بے بنیاد خبروں اور افواہوں کے بارے میں ارباب ِحل و عقد کو آگاہ کرنا چاہئے تاکہ وہ اس کا جائزہ لیں اور ٹھیک ٹھیک صورت ِحال سے ملت کو آگاہ کریں۔ اگر کوئی بات صحیح ہے اور اُمت کو اس سے آگاہ کرنا ضروری ہے تو حکومت خود اس خبر کی اشاعت کرے گی اور اگر معاشرہ میں محض بے چینی یا فتنہ و فساد پھیلانے کے لئے افواہ پھیلائی گئی ہے تو بھی حکومت اور اس کے خفیہ ادارے افواہیں پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کریں گے اور اَفواہوں کے مضر اثرات کی روک تھام کے لئے تمام ضروری اقدامات کریں گے۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہے: ﴿ وَاِذَا جَائَ ھُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِالْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِہٖ وَلَوْرَدُّوْہٗ اِلَی الرَّسُوْلِ وَاِلَی اُوْلِیْ الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَہٗ الَّذِیْنَ یَسْتَنْبِطُوْنَہٗ مِنْھُمْ وَلَوْلاَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہٗ لاَتَّبَعْتُمُ الشَّیْطَانَ اِلاَّ قَلِیْلاً﴾ ’’اور جب ان کو کوئی بات امن یا خطرے کی پہنچتی ہے تو وہ اِسے پھیلا دیتے ہیں۔ اگر یہ اس کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنے اولوالامر کے پاس پہنچا دیں تووہ بات ایسے لوگوں کے علم میں آجائے جو ان کے درمیان اس بات کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ بات کی تہہ تک پہنچ جائیں اور صحیح نتیجہ اَخذ کرسکیں۔ اگر تم پر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تھوڑے سے لوگوں کے سوا تم شیطان کے پیچھے لگ جاتے‘‘ (النساء :۴/۷۳) اس آیت ِمبارکہ میں افواہیں پھیلانے کو شیطانی عمل قرار دیا گیا ہے اور ذمہ دار شہریوں پر یہ فریضہ عائد کیا گیا ہے کہ وہ کوئی افواہ سنیں تو ارباب ِحل و عقد کو اس سے آگاہ کریں۔ خود اس افواہ کو بیان کرکے نہ پھیلائیں۔ بلاوجہ سنی سنائی بات کو لوگوں میں بیان کرکے اس جرم میں شریک نہ ہوں جو کہ بدکردار اور مجرمانہ ذہنیت رکھنے والا فرد افواہ پھیلا کر حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بڑا سنہری اُصول بیان فرمایا ہے جو ملت ِاسلامیہ کے لئے ایک دستوری ہدایت کی حیثیت رکھتا ہے: ’’کفیٰ بالمرء إثما أن یحدث بکل ما سمع‘‘ (سنن ابوداود:ج۲/ ص۲۰۳) ’’گناہ کے لئے یہ بات کافی ہے کہ انسان سنی سنائی بات بیان کرنے لگے‘‘ قرآن حکیم اصلاحِ معاشرہ کے لئے جہاں ضروری ہدایات دیتا ہے وہاں ایسی باتوں کا بھی قلع قمع کرتا ہے جو معاشرہ کے پرامن اور پرسکون ماحول کو بگاڑتی ہوں۔ سورۃ الاسراء کی اس آیت ِمبارکہ کو غور