کتاب: محدث شمارہ 246 - صفحہ 88
تھے کہ وہاں کے محاصرے میں آئے مسلمانوں کو امن و امان کاوعدہ دے کر اس سے ہتھیار ڈلوا لئے گئے، پھر عہد شکنی کرکے نہایت وحشیانہ طریقے سے انہیں قتل کردیا گیاجیساکہ انگلستان کے بادشاہ رچرڈ نے کیا جو ’شیردل‘ کے نام سے مشہور تھا۔ (المنتظم: ۱۷/۴۷، تاریخ ابن خلدون: ۵/۲۵) [1] ۲۔ مشرقِ وسطیٰ کے کئی اسلامی ممالک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ وہاں سے مسلمانوں کو نکال باہر کیاگیا ۔حمص، بعلبک، حماة، عسقلان، قنسرین، طبریہ جیسے عظیم الشان شہر تاخت و تاراج کردیئے گئے۔ بعض شہر ایسے تھے جو مسلمانوں نے دورانِ محاصرہ خود اپنے ہاتھوں سے اُکھاڑ دیئے تاکہ صلیبی ان شہروں سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکیں، شائد کہ انہوں نے سمجھ لیا تھاکہ دوبارہ وہ کبھی ان شہروں میں آباد نہ ہوسکیں گے۔(النوادر السّلطانیہ: ۲۳۵، السلوک لمعرفة دول الملوک:۱/۱۰۶)،مغربی مفکر جیک دی دنتیری لکھتا ہے کہ صلیبیوں نے حمص، بعلبک اورحماة کو باربار لوٹا تاکہ مسلمان انہیں ٹیکس دینے پر راضی ہوجائیں ۔ دیکھئے ماہیة الحروب الصلیبیة : ۲۳۳ ۳۔ لاکھوں مسلمانوں کو جلا وطن کردیا گیا کیونکہ صلیبیوں کامقصد نوآبادیاں قائم کرنا تھا۔ ۴۔ صلیبی جنگوں سے اِستعماری طاقتوں کا راستہ ہموار ہوا اور یہی جنگیں بعد میں ترکوں کے تنزل اور انحطاط کا پیش خیمہ ثابت ہوئیں اور مسلمان طویل عرصہ تک کے لئے سامراجیت کی زنجیروں میں جکڑ دیئے گئے۔ صلیبی جنگوں میں جب تمام مسیحی دنیا کی مجموعی طاقت اِسلامی قوت کو ٹس سے مس نہ کرسکی اور انہیں یقین ہوگیا کہ مشرقی مسلمانوں کو عسکری قوت سے مغلوب نہیں کیا جاسکتا تو اس بات نے انہیں مسلمانوں کومغلوب کرنے کے لئے کوئی اور طریقہ سوچنے پر مجبور کردیا۔ چنانچہ انہوں نے یہ تہیہ کیا کہ مسلمانوں پر فکری یلغار کی جائے ان کے دلوں سے روحِ جہاد نکال دی جائے۔ ان میں خانہ جنگی کروا کر ان کی جنگی قوت کو تباہ کردیا جائے اور اِقتصادی طور پر انہیں اپنا دست نگر بنا لیا جائے۔مغربی مصنف Kigk لکھتا ہے کہ ” صلیبی جنگوں نے مغربی اقوام کی خوابیدہ صلاحیتوں کو اُجاگر کیا، ان کے اَذہان کو کھولا اور وہ تہذیب و تمدن میں اَہل مشرق کے درجہ کو پہنچ گئے جو اس سے قبل علم و فلسفہ، اَدب و شاعری، تہذیب و شائستگی اور تمدن میں اہل مغرب پر فوقیت رکھتے تھے۔اس تہذیبی ترقی اور عسکری جنگ کی پے در پے شکستوں نے یورپین کو متوجہ کیا کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ فکری جنگ کا آغاز کریں ۔“