کتاب: محدث شمارہ 246 - صفحہ 86
کے لئے پہاڑوں اور ٹیلوں میں پناہ لی جس پر یہ فرمانِ شاہی صادر ہوا کہ فرار ہونے والوں کو پکڑ کر محکمہ تفتیش کے حوالہ کیا جائے۔ جب مسلمانوں کے لئے یہ تدبیر بھی کارگر نہ ہوئی تو انہوں نے اندلس سے فرار ہونا شروع کردیا تو حکومت نے ایک اور قانون جاری کیا کہ کسی بھی ملاح یا تاجر پر حرام ہے کہ وہ کسی نو عیسائی کو بغیر سپیشل پرمٹ کے اپنے ساتھ لے جائے۔(دولۃالإسلام فی الأندلس:۶/۳۳۲) پھر وہ دور آیا کہ اسلامی شعائر کو تبدیل کرنے کے بعد مسلمانوں کے طرزِ معاشرت، رسم و رواج، زبان، عربی لباس بلکہ عربی نام اور اَلقاب تک بدل ڈالے گئے۔ عورتوں کو پردہ کرنے اور مہندی لگانے سے منع کردیا گیا اور مردوں کو حکم دیا گیا کہ وہ عیسائیوں کی طرح پتلونیں اور ٹوپیاں پہنیں اور اپنے مکانوں کے دروازے، جمعہ، عیدین اوراپنے مذہبی تہواروں کے موقع پر کھلے رکھیں تاکہ حکومتی کارندے گھروں میں ہونے والی رسومات کا جائزہ لے سکیں ۔ اگر کوئی آدمی محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف کرتے ہوئے یا یہ کہتے ہوئے کہ عیسیٰ علیہ السلام معبود نہیں تھے بلکہ صرف رسول تھے، پکڑ لیا جاتا تو اسے مرتد سمجھ کر موت کے سپردکردیا جاتا اورہر عیسائی کے لئے ضروری تھا کہ وہ عیسائی بننے والے مسلمانوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھے اور اس کی رپورٹ حکومت تک پہنچائے کہ آیا وہ اسلامی طرزِ معاشرت تو اختیار نہیں کرتے، جمعہ کے روز گوشت تو نہیں کھاتے۔ غرض رمضان کے روزے رکھنا یا اس کے دوران صدقہ کرنا یا غروبِ آفتاب کے وقت کوئی چیزکھانا پینا یا طلوعِ فجر سے پہلے کھانا، پینا اور خنزیر کا گوشت نہ کھانا، شراب نہ پینا، وضو کرنا، مشرق کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنا، اپنی اولاد کے سروں پر ہاتھ پھیرنا، مردوں کو غسل دینا، ان کی تجہیز و تکفین کرنا اورانہیں عیسائیوں کے قبرستان میں دفن نہ کرنا، یہ سب اس بات کی علامات تھیں کہ یہ لوگ عیسائیت سے مرتد ہوگئے ہیں ۔ (دولۃالإسلام فی الأندلس:۶/۳۴۵، ۳۴۶،۳۵۷، تاریخ الاحتلال الإسبانی:۱۳/۱۳۱، انطونیو لورٹی کی کتاب المورسکیون) سب سے پہلے اسلامی شعائر کو جڑ سے اکھیڑا گیا۔ پھر ان عادات اور رسوم و رواج کو ختم کیاگیا جومسلمانوں کی شناخت تھے۔ اسی طرح اندلس سے اسلام کا وہ چراغ گل ہوگیا جس نے اپنی ضیا پاشیوں سے پورے اَندلس کو روشن کردیا تھا۔ پھرتقریباً ۱۷۰۳ء بمطابق ۱۰۱۰ھ میں عربوں کو مکمل طور پر ارضِ اندلس سے نکال دینے کا آخری فیصلہ ہوا۔ دو سال کے اندر نصف ملین مسلمان وہاں سے کوچ کرگئے اور جزیرہ نما اندلس سے اِسلام کی بساط لپیٹ دی گئی۔ لا حول ولا قوة الا باللّٰه العلی العليم صلیبی جنگیں مغربی موٴرخین نے صلیبی جنگوں کو مختلف ناموں سے تعبیر کیا ہے جیسے ”دیارِمقدسہ کا قصد“ ”حضرت