کتاب: محدث شمارہ 246 - صفحہ 85
قسم کی تدبیریں انہیں نفع نہ دے سکیں اورانہیں ملک بدر کردیا گیا ۔ ان کی جلا وطنی کی داستان بڑی غمناک، دردناک اور تاریخ انسانیت کی دکھ بھریمثال تھی۔ پھر کیا ہوا کہ بعض مسلمانوں نے نااُمید ہو کر اپنے گھر گرا کر انہیں آگ لگا کرخود اپنی ہلاکت کا سامان کرلیا اور بعض نے اپنی اولاد کو خود اپنے ہاتھوں سے قتل کیا اور پھر خود کشی کرلی۔ اور اکثر وہ بدنصیب تھے جو بھوک، شدت غم اور بیماری کی بھینٹ چڑھ گئے!! اس کے بعد جبراً عیسائی بنانے کی مہم کا آغاز ہوا۔ مسلمانوں کے لئے عیسائیت میں داخل ہونے یا اَندلس سے نکل جانے کے درمیان فیصلہ کرنے کا دور بڑا کٹھن دور تھا۔ بہت سے مسلمانوں نے عیسائیت قبول کرلی اوربہت سارے اَندلس کو خیر باد کہہ گئے ۔شروع میں اس قانون کو زیادہ سختی سے نافذ نہیں کیا گیا تھا۔ لیکن۹۳۰ھ میں پادریوں نے بادشاہ کو پھر بھڑکایا جس کے اثر میں آکر اس نے پھر ایک قانون جاری کیاجس میں یہ طے پایا کہ تمام مسلمان عیسائیت قبول کرلیں ورنہ سپین سے نکل جائیں ۔ اس بار اس قانون کو سختی سے نافذ کیا گیا اور جس نے عیسائیت اختیار کرنے سے انکا رکیا اور مقررہ مدت میں سپین سے نہ نکلا، اسے ہمیشہ کے لئے جیل ڈال دیا گیا اور تمام مساجد گرجوں میں تبدیل کردی گئیں ۔ مسلمانوں کے لئے یہ ظلم ناقابل برداشت تھا، انہوں نے اندلس کے عیسائی شہنشاہ کے سامنے اس ظلم کے خلاف آواز بلند کی۔ شہنشاہ نے بڑے بڑے علماء اور ججز پر مشتمل ایک عدالت قائم کی تاکہ مسلمانوں کے اس دعویٰ کا جائزہ لیا جائے ۔اس عدالت نے یہ فیصلہ دیا کہ مسلمانوں کو عیسائیت پہ مجبو رکرنا درست اقدام ہے۔ جواز یہ پیش کیا گیا کہ اس طرح مسلمان موت، جلاوطنی، قید اور ضبطی جائیداد کے خطرے سے محفوظ ہوجائیں گے۔ ایک ذمہ دار مغربی مسیحی موٴرخ اس ظالمانہ فیصلہ کا ذکر ان الفاظ میں کرتا ہے: ” اس طرح مسلمانوں کو قانونی طور پر عیسائی تصور کرلیا گیا جو گویا ایک طاقتور نے کمزور پر، غالب نے مغلوب پر اور آقا نے غلام پر فرض کردی تھی۔اس فیصلہ کے بعد فرمانِ شاہی جاری ہوا کہ تمام وہ مسلمان جنہیں جبراً عیسائی بنایا گیا ہے، انہیں سپین میں رہنے پر مجبور کیا جائے کیونکہ اب وہ عیسائی بن چکے ہیں ۔اسی طرح ان کی اَولاد کو بھی عیسائی بنا لیا جائے۔ جو عیسائیت سے مرتد ہو، اسے موت اور ضبطی جائیداد کی سزا دی جائے اورجو مساجد ابھی تک باقی ہیں، انہی گرجوں میں تبدیل کردیا جائے“ (دولۃ الإسلام فی الأندلس:۶/۳۵۱) اس کے بعد ایک محکمہ تفتیش قائم کیا گیا جس کا کام مسلمانوں سے عیسائی بننے والوں کی طرزِ معاشرت اور رہن سہن کی نگرانی کرنا تھا کہ آیا ان کی طرزِ معاشرت کیتھولک طرزِ فکر کے مطابق ہے یا نہیں ؟ اس محکمہ کا دوسرا کام یہ تھا کہ غیرکیتھولک عیسائیوں کو کیتھولک عقیدہ اختیار کرنے پر مجبور کیا جائے۔ چنانچہ وہ یہودی اور مسلمان جو درپردہ عیسائی نہیں ہوئے تھے، انہوں نے محکمہ تفتیش کے کارندوں سے بچنے