کتاب: محدث شمارہ 246 - صفحہ 83
کتب کو چن چن کر آگ کے حوالے کردیا۔ مشہور موٴرّخ لبون لکھتا ہے کہ ”کارڈینل نے غرناطہ میں صرف عربوں کے ہاتھ سے لکھے ہوئے اَسی ہزار قلمی مخطوطے جلا دیئے ۔ دوسرے شہروں میں جلائے جانے والے مخطوطے اس کے علاوہ تھے۔ اس طرح گویا اس نے یہ سمجھا کہ وہ اپنے دین کے دشمنوں کا نام ہمیشہ کے لئے تاریخ کے اَوراق سے محو کردے گا لیکن اسے یہ یاد نہ رہا کہ مسلمانوں کے آٹھ سو سال کے کارنامے اور تہذیب و تمدن اور طرزِ معاشرت کے گہرے نقوش صدیوں تک ان کے نام کو زندہ رکھنے کے لئے کافی ہیں ۔“ امریکی موٴ رخ ولیم برسکوٹ لکھتا ہے کہ ”کتب کشی کا یہ اندوہناک عمل انجام دینے والاکوئی جاہل یاگنوار نہیں تھا بلکہ ایک تہذیب یافتہ پختہ عالم تھا۔اس پر طرہ یہ کہ یہ سانحہ اس وقت رونما ہوا جب یورپ جہالت کے گھٹا ٹوپ تاریکیوں سے نکل چکا تھا اوراس پر علم کی روشن صبح طلوع ہوچکی تھی“ (دولة الاسلام فی الاندلس : ۶/۳۱۸ ) عربی کتب کو جلانے کا یہ عمل صرف اندھے تعصب کا نتیجہ نہ تھا بلکہ اس کے پس پردہ اندلس کے مسلمانوں کو عیسائی بنانے کی سوچی سمجھی اسکیم کارفرما تھی۔ کیونکہ کتب ِعربیہ کا وجود مسلمانوں کو عیسائی بنانے کے عمل میں تاخیر کا سبب بن سکتا تھا اوردوسری طرف یہ خطرہ تھا کہ کہیں عیسائی بننے والے مسلمان ان کتابوں کے مطالعہ سے دوبارہ اسلام کی طرف نہ پلٹ آئیں لہٰذا اس علمی وراثت کا قلع قمع ہی ان کے نزدیک ضروری ٹھہرا۔ مشہور مستشرق سیمونیٹ،کارڈینلکے اس گھناؤنے فعل کا دِفاع کرتے ہوئے اس منصوبے اور ہدف کی صراحت اِن اَلفاظ میں کرتا ہے: ”کتابوں کو جلانے کا جو کام کارڈینل نے انجام دیا تھا، اس پر اسے تنقید کا نشانہ نہیں بنایا جاسکتا کیونکہ اس نے تو ایک نقصان دہ چیز کا خاتمہ کیا تھا اور وبا کے وقت متعدی عناصر کو ختم کرنا ہی دانشمندی اور قابل تحسین عمل ہوتا ہے۔ کیتھولک کے حکمران فرنینڈس اور آزابیلا کومسلمانوں کو عیسائی بنانے کے لئے یہ حکم دینا پڑا کہ شریعت اور دین کے متعلق تمام مذہبی کتب مسلمانوں سے واپس لے کر جلا دی جائیں، صرف وہی کتابیں چھوڑی جائیں جن کا دین سے کوئی تعلق نہیں ۔“ (ایضاً) اب ہم یہ خلاصہ بیان کرتے ہیں کہ عیسائیوں نے اَرضِ اندلس سے اسلام کو مٹانے اور عیسائیت کو فروغ دینے کے لئے کون کون سے اسلوب اختیار کئے: سب سے پہلے ۹۰۵ھ میں مسلمانوں کو دعوت وتبلیغ سے عیسائی بنانے کی مہم کا آغاز کیا گیاجس سے بعض وزرا اورامرا محض اپنے جان و مال کے تحفظ کی خاطر عیسائی بن گئے۔ ۹۰۶ھ کے بعد یہ طے ہوا کہ مسلمانوں کو دنیاوی لالچ اور تالیف ِقلوب کے ذریعے عیسائی بنایا جائے اورانہیں دیگر رعایا کے برابر حقوق دیئے جائیں۔(دولۃ الاسلام فی الأندلس : ۶/۳۲۰ )