کتاب: محدث شمارہ 246 - صفحہ 82
اندلس کی تاریخ عیسائیوں کی طرف سے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے لرزہ خیز مظالم کی داستانوں سے لبریز ہے۔ عیسائیوں نے اسلام کو مٹانے کا عزمِ صمیم کرلیا تھا جس کی خاطر وہ تمام عہدوپیمان پامال کر دیئے گئے جو مسلمانوں سے کئے گئے تھے۔ اس دور کا سپینی موٴرخ لکھتا ہے کہ ” فرنینڈس جب غرناطہ کا حکمران بنا تو کلیسا کے متعصّب کیتھولک پادری اِصرار کے ساتھ اس سے یہ مطالبہ کر رہے تھے کہ طائفہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا وجود ارضِ سپین سے مٹا دیا جائے جو مسلمان یہاں رہنا چاہتے ہیں وہ یا تو عیسائیت قبول کرلیں یا اپنی جائیدادیں فروخت کرکے مغرب کی طرف نکل جائیں “ کلیسا کے متعصّب پادریوں کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے سامنے عیسائی حکمران بے بس ہوگئے۔ انہوں نے وہ تمام عہدوپیمان ایک طرف کردیئے جو غرناطہ پر قبضہ کے وقت مسلمانوں سے کئے گئے تھے۔ اورنہایت ظالمانہ اور تشدد آمیز طریقے سے مسلمانوں کے تمام حقوق غصب کر لئے گئے۔ مساجد بندکردی گئیں، ان کے رسم و رواج، مذہب اور طرزِ معاشرت پرپابندی لگا دی گئی ۔انہیں اپنے عقائد اور شریعت پر عمل کرنے کی اجازت نہ تھی۔اسی طرح مسلمانوں سے کئے گئے تمام عہد نامے گویا ایک ایک کرکے پھاڑ دیئے گئے۔علامہ مقری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ ”مسلمانوں نے غرناطہ عیسائیوں کے حوالے نہ کیا، جب تک انہوں نے ۶۷ شرائط تسلیم نہ کرلیں ۔ ان میں یہ شرائط سرفہرست تھیں کہ ان کو پوری مذہبی آزادی ہوگی۔ مسلمان اپنے رسوم و رواج، روایات، زبان اور لباس کے استعمال کو قائم رکھنے کے مجاز ہوں گے۔ مسلمانوں کی اَراضی اور جائیداد کو مکمل تحفظ حاصل ہوگا لیکن جونہی دغاباز عیسائیوں کو کنٹرول حاصل ہوا تو انہوں نے تمام عہدوپیمان پس پشت ڈال دیئے۔“ ۹۰۵ھ میں ایک دفعہ پھر عیسائیوں نے اَندلس کے مسلمانوں کو عیسائی بنانے کی ٹھانی۔ غرناطہ کے تمام فقہا کو جمع کیاگیا اور انہیں تحفے تحائف سے نوازا گیا۔نتیجہ یہ ہوا کہ ان میں سے بعض نے عیسائیت قبول کرلی۔ بعض دیگر مسلمانوں بھی ان کی اتباع میں عیسائی بن گئے۔اُمرا اور وزرا کا طبقہ اپنی جائیدادوں کے تحفظ کے لئے پہلے ہی عیسائی بن چکا تھا۔ یہ وہ بدبخت تھے جنہوں نے دنیا کی خاطر اپنے دین کو بیچ ڈالا۔ ولا حول ولا قوة الا باللّٰه العزيز الحکيم! غرناطہ میں مسلمانوں کو عیسائی بنانے کی یہ تحریک مرکزیت حاصل کرچکی تھی۔ محلہ بیازین (پرانا غرناطہ) کی مسجد کوگرجامیں تبدیل کردیا گیا تاکہ یہ تحریک پورے اندلس میں پھیل جائے۔پھر انہوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ انہوں نے سرزمین اَندلس سے اسلام کا وجود مٹا دینے کا تہیہ کرلیا۔ اسقف ِاعظم (کارڈینلCordinal) نے اندھی مذہبی عزت سے مغلوب ہو کر اپنی مسلم کش پالیسی کی ابتدا اس طرح کی کہ غرناطہ کے علمی ذخیروں سے عربی زبان کی لاکھوں کتابیں میدان رملہ میں جمع کرکے جلا دیں اور سوائے طب کی تین صد کتب کے ایک بھی کتاب باقی نہ چھوڑی۔اس کے بعد پورے اندلس سے عربی