کتاب: محدث شمارہ 246 - صفحہ 75
”بے شک تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں “ (الحجرات:۱۰) اسی طرح فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے : من أسلم من أهل الکتابين فله أجرہ مرتين وله ما لنا وعليه ما علينا [1] ”اہل کتاب (یہودونصاریٰ) میں سے جو شخص مسلمان ہو کیا تو اس کے لئے دوہرا اجر ہے۔وہ ان تمام حقوق کے مستحق ہوں گے جن کے ہم مستحق ہیں اور ان تمام فرائض کے پابند ہو ں گے جن کے ہم پابند ہیں “ دوسرا راستہ یہ ہے کہ وہ اسلام قبول کرنے سے اِنکار کردیں تو اس صورت میں انہیں اختیار ہے کہ یا تو اسلام کے زیر نگیں اور امیرالمو منین کے تابع فرماں ہوکر جزیہ دینا قبول کرلیں یا پھرجنگ کے لئے تیار ہوجائیں، چنانچہ اللہ کا فرمان ہے: ﴿قَاتِلُوْا الَّذِيْنَ لاَيُوٴْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَلاَ بِالْيَوْمِ الآخِرِ وَلاَ يُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَرَسُوْلُه وَلاَ يَدِيْنُوْنَ دِيْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِيْنَ أوْتُوْا الْکِتَابَ حَتّٰی يُعْطُوْا الْجِزْيَةَ عَنْ يَّدٍ وَّهُمْ صَاغِرُوْنَ﴾ (التوبة: ۲۹) ”اہل کتاب میں سے جن لوگوں کا یہ حال ہے کہ نہ تو خدا پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ آخرت کے دن پر، نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول نے حرام ٹھہرا دیا ہے اور نہ ہی ان پر عمل پیرا ہیں تو مسلمانو! ان سے بھی جنگ کرو یہاں تک کہ وہ اپنی خوشی سے جزیہ دینا قبول کرلیں اور حالت ایسی ہو کہ ان کی سرکشی ٹوٹ چکی ہو“ مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ لوگوں کو اسلام اور اس کے اَحکام کا مطیع بنائیں، اس کی دلیل اللہ کا یہ فرمان ہے: ﴿وَقَاتِلُوْهُمْ حَتّٰی لاَتَکُوْنَ فِتْنَةٌ وَّيَکُوْنَ الدِّيْنُ لِلّٰهِ﴾ (البقرہ:۱۹۳) ”تم ان سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور یہ دین اللہ کے لئے ہوجائے“ تمام سلف اور مفسرین جیسے ابن عباس رضی اللہ عنہما، ابوالعالیہ، مجاہد، حسن بصری اور زید بن اسلم رحمہم اللہ وغیرہ کا اس آیت کے مطلب پر اتفاق ہے کہ اس وقت تک کافروں سے لڑو جب تک کہ شرک ناپید نہ ہوجائے اور تمام لوگ ایک اللہ کو اپنا الٰہ نہ مان لیں ۔اسی طرح پیغمبر عربی ا کا فرمان ہے: ”مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے اس وقت تک جنگ کرتا رہوں جب تک وہ کلمہ توحید کااقرار نہ کرلیں ﴿فَإِنِ انْتَهَوْا فَلاَ عُدْوَانَ إِلاَّ عَلٰی الظَّالِمِيْنَ﴾ ”پھر اگر وہ باز آجائیں تو سمجھ لو کہ ظالموں کے سوا او رکسی پر دست درازی روا نہیں “ … پھرفرمایا: ”وہ شخص ظالم ہے جو لا الہ الا اللہ کہنے سے انکا رکرے، ا س سے ہماری لڑائی ہے جب تک وہ لااله الا اللَّه نہ کہہ دے“[2]