کتاب: محدث شمارہ 246 - صفحہ 73
سارے کے سارے ۶۰۷۰ اسیرانِ جنگ کی بخیریت رہائی، کیا اس بات کا منہ بولتا ثبوت نہیں کہ پیغمبر اسلام خوں ریزی اور غارت، ہلاکت اور بربادی، دہشت اور بربریت، غلامی اور ذلت و نکبت کے نہیں، امن و سلامتی، رحمدلی وخدا ترسی، نیکی و احسان، شرافت و اُخوت، حریت و احترامِ آدمیت کے پیغمبر تھے؟ اہل مغرب کے نام دنیا کو آج جس بدامنی، دہشت گردی،وحشت اور درندگی کا چیلنج درپیش ہے اس کے مقابلے میں انسانوں کے بنائے ہوئے نظریات ناکام ثابت ہوچکے ہیں ۔ الہامی مذاہب میں اسلام کے علاوہ باقی تمام مذاہب تغیر و تبدل سے غیر محفوظ ہیں لہٰذا اب اسلام ہی وہ الہامی مذہب ہے جسے عہد ِجدید کے اس خوفناک چیلنج کوقبول کرنے کے لئے آزمایا جانا چاہئے۔ اہل مغرب کے نام ہمارا پیغام یہ ہے کہ وہ اسلام سے تصادم کا راستہ نہ اپنائیں، اسے اپنا حریف نہ سمجھیں، اس سے خا ئف نہ ہوں ۔ اسلام سراسر امن وسلامتی اور محبت و اُخوت کا مذہب ہے اور اپنے سے پہلے آئے ہوئے مذاہب کی تائید کرنے والا ہے۔ اہل مغرب کو حریت ِفکر کے اس عہد میں تعصب سے بالاتر ہو کرپورے صدقِ دل سے پیغمبر اسلام کی سیرتِ طیبہ اور ان کی لائی ہوئی تعلیمات کامطالعہ کرناچاہئے اور حقائق کی تہ تک پہنچنا چاہئے۔ یاد رکھئے، آج اہل مغرب کے پاس دو ہی راستے ہیں : یا تو وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی دعوت حق کو قبول کرکے دم توڑتی ہوئی انسانیت کو تباہی، ہلاکت اور بربادی سے بچا لیں یا پھر اللہ تعالیٰ کی اس سنت کا انتظار کریں جو تھوڑا ہی عرصہ پہلے دریائے آمو کے اس پار بسنے والی دنیا کی ایک عظیم الشان قوت پر پوری ہوچکی اور جس کاذکر اللہ نے اپنی کتابِ مقدس ’قرآن مجید‘ میں ان الفاظ کے ساتھ کیا ہے : ﴿وَکَمْ اَهْلَکْنَا قَبْلَهُمْ مِّنْ قَرْنٍ هُمْ اَشَدُّ مِنْهُمْ بَطْشًا فَنَقَّبُوْا فِیْ الْبِلَادِ هَلْ مِنْ مَّحِيْصٍ﴾ (۵۰:۳۶) ”ہم ان سے پہلے بہت سی قوموں کو ہلاک کرچکے ہیں جو ان سے بہت زیادہ طاقتور تھیں اور دنیا کے ملکوں کو انہوں نے چھان ماراتھا، پھر کیا وہ کوئی جائے پناہ پاسکے ؟“ (سورہ ق:۳۶)