کتاب: محدث شمارہ 246 - صفحہ 72
سے بوئے خوں آتی ہے، اس کا لایا ہوا دین قصاب کی دوکان ہے اور اس کا دیا ہوا فلسفہ جہاد، دہشت گردی اور فساد فی الارض ہے تو پھر جنگ ِعظیم اوّل اور دوم کی داستانیں پڑھ کر بتاؤ کہ کرہ ارضی کو دو مرتبہ آگ اور خون میں نہلانے والے خونخوار اور سفاک درندوں کو کس نام سے پکارو گے۔ کروڑوں معصوم اور بے گناہ جانوں کوہلاک کرنے اور خون کی ندیاں بہانے والے قصابوں اور جلادوں کو کس لقب سے یاد کرو گے؟ سرسبز و شاداب وادیوں اور مرغزاروں کو تاراج کرنے اور شہری آبادیوں کو صفحہٴ ہستی سے مٹانے والے دہشت گردوں اور مفسدوں کو تاریخ میں کون سا مقام دو گے؟ نسل انسانی کے گلے میں طوقِ غلامی کی لعنت ڈالنے والے اور تڑپتی لاشوں پر اپنی عیش و عشرت کے محل سجانے والے مغرور شہنشاہوں کے لئے لغت ِانسانی کے کون سے الفاظ استعمال کرو گے؟ المیہ یہ ہے کہ اہل کتاب عہد ِنبوت میں بھی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو خوب جاننے اور پہچانے کے باوجود محض نسلی تعصب، حسد اور بغض کی وجہ سے ایمان نہیں لائے تھے اور آج بھی ایمان نہ لانے کی اصل وجہ یہی تعصب، حسد اور بغض ہے۔ عہد ِنبوت میں اُمّ المومنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کا بیان کردہ واقعہ اس دعویٰ کا ناقابل تردید ثبوت ہے۔ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اپنے چچا ابویاسر بن اخطب کو سنا وہ میرے (یہودی) والد حیی بن اخطب سے کہہ رہا تھا ”کیا واقعی یہ وہی (نبی) ہے؟“ والد نے کہا ”ہاں ! خداکی قسم وہی ہے۔“ چچا نے کہا ”کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ٹھیک ٹھیک پہچان رہے ہیں ؟“ والدنے کہا ”ہاں ! “ چچا نے پوچھا ”پھر کیا ارادہ ہے؟“ والد نے کہا ”خدا کی قسم! عداوت ہی عداوت، جب تک زندہ رہوں گا “ (الرحیق المختوم، ص۲۸۴) عہد ِنبوت کو گزرے آج چودہ صدیاں بیت چکی ہیں لیکن افسوس کہ حریت ِفکر، آزادی رائے اور تہذیب ِجدید کے اس دور میں مغرب میں بسنے والا ترقی پسند انسان جو مادّی دنیا میں زمین سے چاند تک کا سفر طے کرچکا ہے، ایمان کی دنیا میں تعصب، بغض اور حسد کے مقام سے ایک انچ کاسفر بھی طے نہیں کرسکا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں آج بھی اس کا اندازِ فکر وہی ہے جو چودہ سو سال پہلے تھا ورنہ امر واقعہ یہ ہے کہ جب ساری دنیا میں ہر طرف شرک و بت پرستی کا دور دورہ تھا، جہالت، وحشت اور بربریت کے منحوس سائے چھائے ہوئے تھے۔ خون ریزی، غارت گری، انسانی زندگی کا لازمی جزو بن چکے تھے۔ شہنشاہوں اور ان کے حواریوں نے ہر جگہ رعایا کو بدترین مظالم کا نشانہ بنا رکھا تھا۔مذہبی پروہتوں کی خانقاہیں عیش و عشرت کے اڈّے بنے ہوئے تھے، انسانیت بے بسی اور بے کسی کی خوفناک زنجیروں میں اس طرح جکڑی ہوئی تھی کہ نجات کے لئے کہیں سے اُمید کی موہوم سی کرن بھی نظر نہیں آتی تھی، اس وقت پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، انسانیت کے نجات دہندہ بن کر اُٹھے اور صدیوں پرانے جمے جمائے جاہلانہ نظام سے ٹکر لے کر انتہائی مختصر مدت میں محض چار سو بائیس (۴۲۲) افراد کی قربانی سے پورے جزیرہ عرب میں ایک ایسا عظیم الشان تہذیبی،سیاسی، اقتصادی اور روحانی انقلاب برپا کردیا جو پیغمبرانہ بصیرت کے بغیرممکن ہی نہیں اور پھر سات جنگوں میں صرف ۴۲۲ /افراد کا زیاں اور ۶۰۷۰ / اسیرانِ جنگ میں سے