کتاب: محدث شمارہ 246 - صفحہ 69
۲۔ سرہنری کاٹن کی یاداشتوں سے ایک اقتباس ”میں نے اپنے سکھ اردلی کی خواہش پر ان بدبخت مسلمانوں کو عالم نزع میں دیکھا جن کی مشکیں کس کے زمین پربرہنہ ڈال دیا گیا تھا۔ ان کے جسم پر گرم تانبے کی سلاخیں داغ دی گئی تھیں ۔ میں نے انہیں پستول سے ختم کردینا ہی مناسب سمجھا، ان بدنصیب قیدیوں کے سڑے ہوئے گوشت سے مکروہ بدبونکل کر آس پاس کی فضا کو مسموم کر رہی تھی۔“ (ایضاً: ص ۱۳۷،۱۳۸) ۳۔ مسٹر ڈی لین ایڈیٹر ’ٹائمز آف انڈیا‘ کے مضمون کا ایک اقتباس ”زندہ مسلمانوں کو سور کی کھال میں سینا یا پھانسی دینے سے پہلے ان کے جسم پر سور کی چربی ملنا یا زندہ آگ میں جلانا اور انہیں مجبور کرنا کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ بدفعلی کریں یقینا عیسائیت کے نام پر ایک بدنما دھبہ ہے“ (ایضاً) ۴۔ جنرل نکلسن نے دریائے راوی کے کنارے جس بہیمانہ طریقے سے باغیوں کو قتل کیا، وہ ایک لرزہ خیز داستان ہے۔ انگریز موٴرخوں نے خود اسے انگریز قوم کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ قرار دیا۔ بقول لارڈ الفسٹن ”ہماری فوج کے مظالم کا تذکرہ روح میں کپکپی پیدا کردیتا ہے۔ جہاں تک لوٹ مار کا تعلق ہے، ہم نادر شاہ ایرانی سے بھی بازی لے گئے ہیں “ (ایضاً:۱۳۶) ۱۹۱۸ء میں سوویت یونین نے قازقستان پرقبضہ کیا تو وہاں کی تمام مساجد اور دینی مدارس منہدم کردیئے۔ علماء اور اساتذہ کوفائرنگ اسکواڈ کے سامنے بھون دیا گیا۔ ان ظالمانہ کارروائیوں میں دس لاکھ قازق مسلمان شہید کئے گئے۔ (ماہنامہ اُردو ڈائجسٹ، جولائی ۱۹۹۵ء) ۱۹۴۶ء میں یوگو سلاویہ میں کمیونسٹ انقلاب آیا تو کیمونسٹوں نے چوبیس ہزار سے زائد مسلمانوں کو تہ تیغ کیا۔ سترہ ہزار سے زائد مساجد اور مدارس مسمار کئے اور بیشتر مساجد کی جگہ ہوٹل اور سینما جات تعمیر کردیئے۔ آج جس جگہ سربیا کے دارالحکومت بلغراد کااسمبلی ہاؤس واقع ہے وہاں بلغراد کی سب سے زیادہ خوبصورت وسیع و عریض مسجد واقع تھی جو ۱۵۲۱ء میں تعمیر کی گئی تھی۔ (مجلہ الدعوة:فروری ۱۹۹۳ء) داروسکندر سے لے کر ترقی یافتہ یورپ کے مہذب جرنیلوں تک کی روایت یہی ہے کہ فاتح قوم مفتوح قوم کے مردوں، عورتوں، بچوں، بوڑھوں کو بے دریغ قتل کرتی ہے۔ شہریوں اور بستیوں کو تاراج کرتی ہے، سرسبزوشاداب کھیتوں اور باغات کو برباد کرتی ہے، گھروں اور عمارتوں کونذرِ آتش کرتی ہے، لیکن پیغمبر اسلام نے اس خونی روایت سے ہٹ کر ایک عظیم انقلابی اور اِصلاحی روایت کی طرح ڈالی تو اس کی وجہ یہ ہے کہ پیغمبر اسلام کامشن لوگوں کی جانیں لینا نہیں، جانیں بچانا تھا، زمین کے خطوں کوفتح کرنا نہیں بلکہ دلوں کوفتح کرنا تھا، انسانوں کو ذلیل اور رسوا کرنا نہیں بلکہ عزوشرف عطا کرنا تھا۔ شہروں اور بستیوں کو ویران کرنا نہیں بلکہ آباد کرنا تھا۔ درندگی، دہشت گردی اور فساد فی الارض برپا کرنا نہیں بلکہ