کتاب: محدث شمارہ 246 - صفحہ 66
۴۔ مفتوحین سے سلوک فتح کے بعد فاتح قوم، مفتوح قوم سے بڑا سنگدلانہ اور بے رحمانہ سلوک کرتی ہے۔ قدیم اور جدید عہد کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے لیکن پیغمبر اسلام نے اپنے دشمنوں پر مکمل دسترس حاصل کرنے کے بعد رحمدلی، خدا ترسی، عفووکرم اور حسن سلوک کی نادر مثالیں پیش کرکے جنگوں کی تاریخ میں ایک نئے زرّیں باب کا اضافہ فرمایا۔ مکہ فتح ہوا تو تمام اکابر مجرمین، جن میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیف قبیلہ بنو خزاعہ کے حرم کے اندر خون بہانے والا عکرمہ بن ابی جہل، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو نیزہ مار کر اونٹ سے گرانے والا ہبار بن اسود (یاد رہے کہ اونٹ سے گرنے کے نتیجہ میں حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا حمل ساقط ہوگیا تھا) مکی زندگی میں بیت اللہ شریف کی چابی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کودینے سے سختی سے انکار کرنے والا عثمان بن طلحہ، مکہ مکرمہ میں داخلہ کے وقت لشکر اسلام کی مزاحمت کرنے والا صفوان بن امیہ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کوشہید کرکے جسم مبارک کا مثلہ کرنے والا وحشی بن حرب، حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا کلیجہ نکال کر چبانے والی ہند بنت عتبہ، سارے کے سارے مجرم موجود تھے ۔رحمت ِعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطابِ عام فرمایا اور پوچھا: ”تم لوگ مجھ سے کس سلوک کی توقع رکھتے ہو؟“ لوگوں نے کہا: ”آپ شریف بھائی ہیں اور شریف بھائی کے بیٹے ہیں ۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں ارشاد فرمایا : ﴿لاَ تَثْرِيْبَ عَلَيْکُمُ الْيَوْمَ…﴾ ”آج تم پر کوئی سرزنش نہیں، جاؤ تم سب آزاد ہو“ مفتوح قوم سے حسن سلوک کی اس پیغمبرانہ تعلیم کا ہی نتیجہ تھا کہ عہد ِنبوت کے بعد مسلم فاتحین بھی اس طرزِ عمل پر کاربند رہے۔ عہد ِصدیقی میں جب حیرہ فتح ہوا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے وہاں کے عیسائیوں کو از روئے معاہدہ یہ حقوق عطا فرمائے: ”ان کی خانقاہیں اور گرجے منہدم نہیں کئے جائیں گے، کوئی جنگی قلعہ نہیں گرایا جائے گا، ناقوس بجانے کی اجازت ہوگی، تہوار کے موقع پرصلیب نکالنے کی اجازت ہوگی“ جزیہ کی شرح محض دس درہم سالانہ تھی جو کہ سات ہزار میں سے صرف ایک ہزار ذمیوں سے وصول کی جاتی، اپاہج اور نادار ذمیوں کی کفالت کا اسلامی بیت المال ذمہ دار تھا۔ ( تاریخ اسلام، ص۱۵۳) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیت المقدس کو فتح کیا تو مفتوح قوم کو ان الفاظ میں معاہدہ امن لکھ کردیا ”یہ وہ امان ہے جو اللہ کے بندے امیر المومنین عمر رضی اللہ عنہ نے ایلیا کے لوگوں کو دی۔ یہ امان ان کی جان، مال، گرجا، صلیب، تندرست، بیمار اور ان کے تمام مذہب والوں کے لئے ہے، نہ ان کے گرجاؤں میں سکونت کی جائے گی، نہ وہ گرائے جائیں، نہ ان کی صلیبوں اور ان کے اموال میں