کتاب: محدث شمارہ 246 - صفحہ 65
اثال گرفتار ہو کررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کا حکم دیا اور خود گھر جاتے ہی فرمایا ”گھر میں جو کھانا موجود ہے، وہ ثمامہ کو بھجوا دیا جائے نیز فرمایا کہ روزانہ میری اونٹنی کا دودھ صبح و شام اسے بھجوا دیا جائے۔‘‘ یاد رہے کہ ثمامہ ماضی میں نہ صرف رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی کوشش کرچکا تھا بلکہ کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا قاتل بھی تھا۔ اس کے باوجود تین چار دن کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بطورِاحسان بلا فدیہ رہاکرنے کا حکم دیا تو اس حسن سلوک اور فیضانِ عفووکرم سے متاثر ہو کر ثمامہ مسلمان ہوگیا۔ اب ایک نظر ’مہذب اور امن پسند‘ یورپ کے اسیرانِ جنگ سے’حسن سلوک‘ پربھی ڈال لیجئے: قیصر روم باسل (۹۶۳ء تا ۱۰۲۵ء) نے بلغاریہ پر فتح حاصل کی تو پندرہ ہزار اسیرانِ جنگ کی آنکھیں نکلوا دیں ۔ ہر سو قیدی کے بعد ایک قیدی کی ایک آنکھ باقی رہنے دی تاکہ وہ ان اندھوں کو گھروں تک پہنچا سکیں ۔ (یورپ پر اسلام کے احسان از ڈاکٹر غلام جیلانی برق: ص۸۲) ایک جنگ میں رومی عیسائیوں نے مسلمانوں کو شکست دی تو تمام مسلم اسیرانِ جنگ کو سمندر کے کنارے لٹا کر ان کے پیٹ میں لوہے کے بڑے بڑے کیل ٹھونک دیئے تاکہ بچے کھچے مسلمان جب جہازوں پرواپس جائیں تو اس منظر کو دیکھ سکیں ۔(ایضاً) ۱۷۹۹ء میں مہذب یورپ کے سب سے بڑے جنرل نپولین بونا پارٹ نے یافا کے چار ہزار ترک اسیرانِ جنگ کو محض اس عذر کی بنا پر قتل کرا دیا کہ وہ انہیں کھلانے کے لئے خوراک مہیا نہیں کرسکتا اور نہ مصر بھیجنے کا انتظام کرسکتا ہے۔ (الجہاد فی الاسلام : ص۵۴۶) جنگ ِعظیم دوم (۱۹۳۹ء تا ۱۹۴۵ء) میں فلپائن کے ایک محاذ پر امریکہ اور فلپائن کی مشترکہ فوج کے ۷۵ ہزارفوجیوں نے جاپانی فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے۔ فاتح فوج نے ۷۵ ہزار اسیرانِ جنگ کو شدید گرمی، بھوک اور پیاس کی حالت میں ۶۵ میل پیدل چلا کر نظر بندی کیمپوں تک پہنچنے کا حکم دیا۔بیشتر اسیرانِ جنگ طویل سفر کی ناقابل برداشت صعوبتوں کی وجہ سے راستے میں ہی ہلاک ہوگئے۔ تاریخ میں اس سنگدلانہ اور بے رحمانہ سفر کوDeath March کا نام دیا گیا ہے۔(قومی ڈائجسٹ:جولائی ۹۵ء) قارئین کرام! تاریخ کے دو کردار، دو نظامِ حیات، دو عقیدے، دو نظریے اور دو راستے ہمارے سامنے ایک کھلی کتاب کی طرح رکھے ہیں، کیا یہ حقیقت سمجھنے میں کوئی دقت یا دشواری پیش آرہی ہے کہ کون سے نظامِ حیات یا عقیدے کی بنیاد نیکی، احسان، امن، سلامتی، شرافت اور احترامِ آدمیت پرہے اور کون سے نظامِ حیات یا عقیدے کی بنیاد ظلم، خون ریزی، غارت گری، انسانیت دشمنی، دہشت گردی، سنگدلی، بے رحمی اور وحشت و بربریت پر ہے؟