کتاب: محدث شمارہ 246 - صفحہ 62
۱۰۹۹ء میں عیسائیوں نے جب بیت المقدس پرقبضہ کیا تو مسلمانوں کی حالت یہ تھی کہ ہر طرف ان کے ہاتھ اور پاؤں کے انبار لگ گئے، کچھ آگ میں زندہ پھینکے جارہے تھے،کچھ فصیل سے کود کر ہلاک ہو رہے تھے اور گلیوں میں ہر طرف سر ہی سر نظر آرہے تھے۔ حضرت سلیما ن علیہ السلام کے ہیکل میں دس ہزار مسلمانوں نے پناہ لی تھی، عیسائیوں نے ان سب کو قتل کر ڈالا۔ (یورپ پر اسلام کے احسان: ص۸۲) آج کے مہذب ترین یورپ کا حال عہد ِقدیم کے وحشی یورپ سے ذرا بھی مختلف نہیں ۔ مارچ ۱۹۹۲ء میں بوسنیا کے مسلمان شہریوں نے ریفرنڈم کے ذریعہ آزادی کا فیصلہ کیا تو متعصّب سرب عیسائیوں نے بوسنوی مسلمانوں پر جو ظلم و ستم کئے، وہ تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔ مسلمانوں کے سینوں پر خنجروں سے صلیب کے نشان بنائے گئے، بچوں کو ذبح کرکے ماں باپ کو ان کا خون پینے پر مجبور کیاگیا۔ حاملہ خواتین کے پیٹ چاک کرکے معصوم بچے نکال کر ذبح کئے گئے ۔کم سن نوجوان اور بوڑھی خواتین کی آبروریزی کرکے انہیں قتل کیا گیا۔ مسلمان قیدیوں کے جسموں سے اس طرح خون نکالا گیا کہ وہ سسک سسک کر موت کے منہ میں چلے گئے۔ زندہ انسانوں کے جسموں سے خنجروں کے ساتھ کھال اُتاری گئی۔ بستیوں کی بستیاں اور دیہاتوں کے دیہات نذرِ آتش کئے گئے۔ پناہ گزین زندہ جلا دیئے گئے، لاشوں کا مثلہ کیا گیا، سرکاٹ کر سڑکوں پر فٹ بال کی طرح روندے گئے۔[1] قدیم اور جدید وحشی یورپ کے یہ واقعات کسی تبصرہ کے محتاج نہیں ۔ یہ واقعات پڑھ کرکسی بھی ذی ہوش انسان کے لئے یہ فیصلہ کرنامشکل نہیں کہ دورانِ جنگ احترامِ آدمیت، امن، سلامتی، نیکی، احسان، رحمدلی، خداترسی اور شرافت کس پلڑے میں ہے اور ظلم، بربریت، دہشت گردی، شقاوت اور درندگی کس پلڑے میں ہے…؟؟ ۲۔ غیر مقاتلین سے سلوک جنگ میں کسی بھی صورت میں حصہ نہ لینے والے اَفراد مثلاً عورتیں، بچے، بوڑھے، بیمار، زخمی اور معذور لوگ یا گوشہ نشین درویش وغیرہ کو اسلام نے قتل کرنے سے منع کیا ہے۔ رسولِ رحمت کا ارشادِ مبارک ہے ”عورتوں اور بچوں کو قتل نہ کرو“ (بخاری)… ایک دوسری حدیث میں ارشاد مبارک ہے ”عورتوں اور مزدوروں کو قتل نہ کرو“ (ابوداود)… ایک جنگ میں کچھ لوگ جمع تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے استفسار پر بتایا گیا کہ ایک عورت کی لاش پر لوگ جمع ہیں “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناراض ہو کر فرمایا: ”عورت تو قتال نہیں کر رہی