کتاب: محدث شمارہ 246 - صفحہ 61
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ہم قریش سے کئے گئے معاہدے کوپورا کریں گے اور اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کریں گے“ چنانچہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ خواہش کے باوجود جنگ ِبدر میں شریک نہ ہوسکے۔(حیاتِ صحابہ کے درخشاں پہلو: حصہ دوم، ص۱۳۷) حقیقت یہ ہے کہ پیغمبر اسلام کی ان اعلیٰ و ارفع تعلیمات اور ذاتی حسن عمل نے عہد شکنی، دھوکہ دہی، خون ریزی، وحشت بربریت، درندگی اور خونخواری کی حامل جنگوں کا اصولاً خاتمہ کرکے جنگ کو ایک مقدس مشن کا مقام دے دیا اور یہ مقدس مشن ’جہاد فی سبیل اللہ‘ مسلمانوں کے لئے اسی طرح کی ایک عبادت بنا دیا گیا جیسی نماز، روزہ، حج، زکوٰة اور صدقات وغیرہ عبادت ہیں ۔ جنگ ِاُحد میں دشمنوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک نچلا دانت مبارک توڑ دیا،ہونٹ زخمی ہوگیا، خود کی دو کڑیاں چہرے کے اندر دھنس گئیں اور چہرہ اقدس خون آلود ہوگیا۔ میدانِ اُحد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جاں نثار ساتھیوں کی لاشوں سے اَٹا پڑا تھا، لاشوں کا مثلہ کیا گیا تھا۔ میدانِ جنگ کا یہ نقشہ دیکھ کر کسی بھی فوج کے سپہ سالار کی جو ذہنی کیفیت ہوسکتی ہے،اس کاندازہ لگانا مشکل نہیں ۔ چنانچہ لمحہ بھر کے لئے انسانی جذبات غالب آگئے اور فرمایا: ”اس قوم پر اللہ کا سخت عذاب ہو جس نے اپنے پیغمبر کا چہرہ خون آلود کردیا“ لیکن فوراً مقدس مشن کے علمبردار رحمة للعالمین، محسن اِنسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بددعاکو اِس دعا کے ساتھ بدل دیا ”اے اللہ! میری قوم کو ہدایت دے کہ وہ جانتی نہیں “ (الرحیق المختوم: ص۴۲۱) مخلوقِ خدا کے رحم و کرم کی یہ بارش،بنی نوع انسان کے لئے عفوو درگزر کا یہ فیضان او راپنے قاتلوں اور جانی دشمنوں کے لئے ہدایت اور نیکی کی یہ دعائیں اس بات کا واضح اعلان ہیں کہ مطلوب انسانوں کی ہلاکت اور بربادی نہیں بلکہ ہدایت اور فلاح ہے۔ سیرتِ طیبہ کا یہ پہلو عظمت ِکردار کی ایسی رِفعتوں اور بلندیوں کا حامل ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے مصلحین اور فاتحین پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی اس شانِ کریمی کے آگے اوندھے منہ پڑے نظر آتے ہیں۔ حق بات یہ ہے کہ بنی نوع انسان پر پیغمبر اسلام کا یہ وہ احسانِ عظیم ہے جس کے بار سے بنی نوع انسان تاقیامت سبکدوش نہیں ہوسکتی۔ اسلام نے یہ پاکیزہ اور اعلیٰ و اَرفع تعلیمات اس وقت دیں جب اپنے وقت کی مہذب ترین اقوام … روم و ایران … جنگوں میں وحشی جانوروں سے برتر وحشت کا مظاہرہ کر رہی تھیں ۔ ۵۴۰ء میں نوشیروان نے شام پر چڑھائی کی تو اس کے دارالحکومت انطاکیہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، باشندوں کا قتل عام کیا، عمارتوں کو مسمار کیا، جب اس سے بھی تسکین نہ ہوئی تو شہر میں آگ لگوا دی۔ (الجہاد فی الاسلام: ص۲۱۲)