کتاب: محدث شمارہ 246 - صفحہ 60
اَقوام ان قوانین کی پابندی سے آزاد ہوتی ہیں ۔ اسلامی جنگیں اور غیر مسلموں کی جنگوں کا تقابلی مطالعہ جہادِ اسلامی کے قواعد و ضوابط اور دنیاوی جنگوں کے خود ساختہ قوانین میں اس بنیادی فرق کی وضاحت کے بعد ہم جہادِ اسلامی اور اقوامِ مغرب کی جنگوں کے بعض اُمور کا تقابلی جائزہ پیش کر رہے ہیں جو ہمیں یہ فیصلہ کرنے میں مدد دے گا کہ تاریخ کی میزانِ عدل میں خون ریزی، غارت گری، دہشت گردی، درندگی، سفاکی اور بربریت اَقوامِ مغرب کی جنگوں کے پلڑے میں ہے یا جہادِ اسلامی کے پلڑے میں ؟ ۱۔ آدابِ قتال رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دورانِ جہاد مختلف مواقع پر جو ہدایات ارشاد فرمائیں، وہ یہ ہیں : دورانِ جہاد دشمن کے مقتولین کامثلہ نہ کرنا(بخاری) …دشمن کی اَملاک میں لوٹ مار نہ کرنا(ابوداود)… دشمن کو اَذیت دے کر قتل نہ کرنا(ابوداود)… زیردست دشمن کوآگ میں نہ جلانا (بخاری) …دشمن کو امان دینے کے بعد قتل نہ کرنا (ابن ماجہ) …دشمن کو دھوکہ سے قتل نہ کرنا(ابوداود) جنگ ِموتہ کے لئے لشکر اسلام کوروانہ کرتے ہوئے درج ذیل ہدایات دیں : ”بدعہدی نہ کرنا، خیانت نہ کرنا، کسی بچے بوڑھے اور درویش کو قتل نہ کرنا، کھجور یا کوئی دوسرا درخت نہ کاٹنا، کسی عمارت کو منہدم نہ کرنا“ (رحمۃللعالمین از قاضی سلیمان منصور پوری: ۲/۲۷۱) حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کوروانہ فرماتے ہوئے درج ذیل ہدایات دیں : (موطا ٴ مالک رحمۃ اللہ علیہ ) ”خیانت نہ کرنا، مال نہ چھپانا، بے وفائی نہ کرنا، مثلہ نہ کرنا،بوڑھوں، بچوں اور عورتوں کو قتل نہ کرنا، ہرے بھرے اور پھلدار درختوں کونہ کاٹنا، کھانے کے علاوہ جانوروں کو بے کار ذبح نہ کرنا“ ایک فوجی مہم میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے غلط فہمی میں کچھ لوگ مارے گئے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور فرمایا: ”اے اللہ! خالد نے جو کچھ کیا میں اس سے بری الذمہ ہوں “(بخاری) بعد میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتولین کی دیت اور ان کے نقصانات کا معاوضہ ادا فرمایا۔ جنگ ِبدر سے چند یوم پہلے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ اپنے والد ِمحترم کے ساتھ مکہ مکرمی سے ہجرت کرکے مدینہ آرہے تھے، کافروں نے روک لیا اور اس وعدہ پر مدینہ جانے کی اجازت دی کہ اگر جنگ ہوئی تو تم اس میں حصہ نہیں لو گے۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے وعدہ کرلیا اور مدینہ پہنچ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو صورتِ حال سے آگاہ کردیا۔جنگ کا موقع آیا تو حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ”یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اب ہم کیا کریں ؟“ رسولِ