کتاب: محدث شمارہ 246 - صفحہ 59
ذلیل و رسوا کرنے لگے،کسی طاقتور کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ خود بندوں کامالک بن جائے اور ان کی عزتوں سے کھیلنے لگے، کسی حاکم کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ لوگوں کا شہنشاہ بن جائے اور رعایا کے حقوق پامال کرنے لگے گویا بنیادی طور پر دین اسلام امن، سلامتی، مساوات، عدل و انصاف اور اُخوت کا مذہب ہے اور ظلم و زیادتی، جبروتشدد، بدامنی و دہشت گردی، خون ریزی اور غارت گری کا شدید دشمن ہے لہٰذا دین اسلام کو غالب کرنے کا مطلب اَمن و سلامتی، عدل و انصاف، مساوات اور اُخوت کا قیام اور ظلم و زیادتی جبروتشدد، بدامنی، دہشت گردی، خون ریزی اور غارت گری کا خاتمہ اور استیصال ہے۔ بعض دیگر جنگی اُمور کا تقابلی جائزہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، اس لئے اس نے مسلمانوں کو زندگی کے ہر معاملہ میں ہدایات دی ہیں ۔ جہاد فی سبیل اللہ کے بارے میں بھی مسلمانوں کو ایسے قواعد و ضوابط کا پابند بنایا گیاہے جوکہ اولاً: قیامت تک کے لئے نافذ العمل ہیں ۔ ثانیاً: ان قواعد و ضوابط میں کسی بڑی سے بڑی اتھارٹی کو تغیر و تبدل کا اختیارنہیں ۔ ثالثاً: ان قواعد و ضوابط کا ہر وہ شخص پابند ہے جو اپنے آپ کو مسلمان کہلاتا ہے۔ اگر کوئی فاتح یا سپہ سالار ان قواعد وضوابط پر دورانِ جہاد عمل نہیں کرتا تو شریعت کی نگاہ میں وہ قانون شکن اور مجرم ہے جس کی اللہ کے ہاں قیامت کے روز باز پرس ہوگی۔ اس کے مقابلہ میں مغربی اَقوام کے بارے میں یہ حقائق تاریخ کے ریکارڈ میں محفوظ ہیں کہ : اولاً: سترہویں صدی کے ابتدا تک مغربی اَقوام کے ہاں قانونِ جنگ نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ [1] ثانیاً: مغربی اَقوام کے وضع کردہ قوانین جنگ ان کے اپنے مفادات کے تابع ہی وضع کئے گئے ہیں جن میں حسب ِضرورت نہ صرف تغیر و تبدل ہوتا رہتا ہے بلکہ قانون بنانے والے جب چاہتے ہیں، اپنے ہی قانون کی دھجیاں اڑا دیتے ہیں ۔ [2] ثالثاً: ان قوانین کی پابندی صرف وہ اَقوام کرتی ہیں جو باقاعدہ اس معاہدہ میں شریک ہوتی ہیں، دیگر