کتاب: محدث شمارہ 246 - صفحہ 58
والوں کے خلاف اللہ تعالیٰ نے جہاد کرنے کا حکم دیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں مذہبی جبر ختم کرنا اسلامی عقائد اور نظریات کی نشوونما اور ارتقاء میں رکاوٹ بننے والی باطل قوتوں کا قلع قمع کرنانیز بحیثیت ِمسلمان اپنے قومی وجود اور قومی یکجہتی کی حفاظت کرنا بھی جہادِ اسلامی کے مقاصد میں شامل ہے۔ ۳۔ سورہ توبہ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جہاد کا حکم دیا ہے اور ساتھ ہی جہاد کا مقصد بھی بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿قَاتِلُوْا الَّذِيْنَ لاَيُوْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَلاَبِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَلاَ يُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَرَسُوْلُه وَلاَيَدِيْنُوْنَ دِيْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوْا الْکِتَابَ حَتّٰی يُعْطُوْا الْجِزْيَةَ عَنْ يَّدٍ وَّهُمْ صٰغِرُوْنَ﴾(سورہ توبہ:۲۹) ”جنگ کرو اہل کتاب میں سے ان لوگوں کے خلاف جو اللہ اور روزِ آخرت میں ایمان نہیں لاتے اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے، اسے حرام قرار نہیں دیتے اور دین حق کو اپنا دین نہیں بناتے (ان سے لڑو) یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کریں اور زیر دست بن کر رہیں “ مذکورہ آیت سے دو باتیں بالکل واضح ہیں : ا دین حق کو غالب کرنے کے لئے کفار اور مشرکین کے خلاف جہاد کرنے کا حکم ہے ۔ ب غیر مسلموں کو بزورِ تلوار مسلمان بنانا مطلوب نہیں بلکہ اسلام کوغالب کرنے میں ان کی فعال تخریبی قوتوں کا قلع قمع کرنا مطلوب ہے۔یہی بات اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ میں بھی ارشاد فرمائی ہے : ﴿وَقَاتِلُوْهُمْ حَتّٰی لاَ تَکُوْنَ فِتْنَةٌ وَّيَکُوْنَ الدِّيْنُ لِلّٰهِ﴾ (سورہ بقرہ:۱۹۳) ”کافروں سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کے لئے ہوجائے“ اس آیت میں دین اسلام کو غالب کرنے کے لئے جہاد کا حکم دیا گیا ہے اور ساتھ ہی یہ ارشادِ مبارک ہے کہ دین کو غالب کرنے کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے کا فتنہ جب تک ختم نہ ہوجائے، اس وقت تک جنگ کرتے رہو۔ یاد رہے کہ دین اسلام کی بنیاد عقیدہ توحید ہے جس کے مطابق اس دنیاکا خالق، مالک، رازق، معبود، آقا اور شہنشاہ صرف ایک اللہ کی ذات ہے، باقی ساری مخلوق اس کے عاجز بندے اور دست بستہ غلام ہیں جو اس کے آگے جوابدہ ہیں لہٰذا کسی انسان کویہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ خود لوگوں کاآقا بن جائے اور دوسروں کو اپناغلام بناکر ان پر ظلم و ستم کرنے لگے، کسی پیشوا کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ خود بندوں کا معبود بن کر ان سے اپنی پوجا کروانے لگے، کسی دولت مند کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ خود بندوں کا رازق بن کر ان کو