کتاب: محدث شمارہ 246 - صفحہ 54
دیا۔ ہر آدمی کو مکمل اختیار دیا ہے کہ وہ چاہے تواِسلام قبول کرے،جو چاہے نہ کرے۔ اگر دین زبردستی منوانا مقصود ہوتا تو پھر جزا اور سزا کا مقصد ہی ختم ہوجاتا ہے۔ قرآنِ مجید میں اس مضمون کی بے شمار آیات ہیں جن میں سے بعض یہ ہیں : (۷۳:۱۹)،(۷۶:۲۹)،(۸۰:۱۲)،(۸۱:۲۷۔۲۸) ۳۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دورانِ دعوت جن حالات سے سابقہ پیش آرہا تھا، ان سے بعض اوقات آپ صلی اللہ علیہ وسلم پریشان ہوجاتے کہ لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں باربار یہ وضاحت ارشاد فرمائی﴿وَإِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَيْکَ الْبَلاَغُ﴾ ”اگر لوگ روگردانی کریں تو تم پر صرف پیغام پہنچا دینے کی ذمہ داری ہے“ (سورہ آلِ عمران :۲۰) یعنی اگر لوگ ایمان نہیں لاتے تو آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، آپ کی ذمہ داری صرف پیغام پہنچانا ہے۔ زبردستی منوانا نہیں ۔ اس مضمون کی دوسری آیات میں سے چند ایک یہ ہیں (۵:۹۹)‘ (۱۶:۳۵)‘ (۴۲:۴۸)‘ (۸۸:۲۱، ۲۲) جہاد کے اَحکام دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں : ”کافروں سے جنگ کرو حتیٰ کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں “[1] (سورہ توبہ:۲۹) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ کافروں سے جنگ کرو حتیٰ کہ وہ مسلمان ہوجائیں بلکہ یہ فرمایا ہے کہ جب کافر جزیہ ادا کرنے پر راضی ہوجائیں تو جنگ بند کردو۔ جزیہ کا قانون بذاتِ خود اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام زبردستی کسی کو مسلمان نہیں بنانا چاہتا۔سورہ بقرہ میں اللہ تعالیٰ نے جہاد کا حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے :”کافروں سے جنگ کرو حتیٰ کہ فتنہ باقی نہ رہے“(سورہ بقرہ:۱۹۳) یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ کافروں سے اس وقت تک جنگ کرو جب تک وہ مسلمان نہیں ہوجاتے بلکہ مطلوب یہ ہے کہ دین اسلام کو غالب اور نافذ کرنے میں دشمنانِ اسلام کی کھڑی کی ہوئی رکاوٹیں دور ہوجائیں ۔ قرآنی احکام کے بعد سنت ِمطہرہ کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں : ۱۔ غزوہ بدر میں کافروں کے ۷۰ آدمی قید ہوئے جنہیں رہاکرنے کے لئے دو شرطیں مقرر کی گئیں پہلی یہ کہ فدیہ اَدا کیا جائے۔ دوسری یہ کہ جو فدیہ نہ دے سکے وہ دس وہ دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دے۔ چند آدمیوں کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مشروط طور پربطورِ احسان بھی رہا فرمایا۔ اگر زبردستی