کتاب: محدث شمارہ 246 - صفحہ 53
پر حملہ کردیا اور ایک لاکھ مسلمان قتل کرڈالے، اس کے بعد مسلمانوں کے گھروں، گلیوں اوربازاروں میں قاتلانہ حملے شروع ہوگئے حتیٰ کہ ۱۶۳۰ء تک ایک بھی مسلمان سپین میں باقی نہ رہا۔( یورپ پر اسلام کے احسان از ڈاکٹر غلام جیلانی برق: ص۸۷،۸۸) مارچ ۱۹۹۲ء میں بوسنیا ہرزگووینا کے شہریوں نے ایک ریفرنڈم میں ۴․ ۹۹ فیصد کثرت سے آزادی کی حمایت میں ووٹ دیئے جس کے نتیجہ میں بوسنوی مسلمانوں نے اپنی آزاد ریاست کا اعلان کردیا۔ اعلانِ آزادی کے دن سے لے کر آج کے دن تک مسلمانوں پر جو قیامت خیز مظالم ڈھائے جارہے ہیں، اس کی وجہ اس مذہبی جبر کے علاوہ او رکیا ہے کہ یورپی عیسائی برادری اپنے درمیان کسی آزاد مسلمان ریاست کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ۔ مذکورہ مثالوں میں خون ریزی، غارت گری، درندگی اور سفاکی کا جذبہ محرکہ صرف مذہبی جبر ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ یہ گھناؤنا اور مکروہ کردار ان اَقوام کا ہے جنہوں نے یہ پروپیگنڈہ کرتے کرتے زمین و آسمان کے قلابے ملا رکھے ہیں کہ” اِسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے، مسلمان دہشت گرد اور ڈاکو ہیں “[1]یہ پروپیگنڈہ اس قدر فنکاری اور عیاری سے کیا گیا ہے کہ ان کی اپنی خونخوار اور مکروہ تصویر اس پروپیگنڈے کے پیچھے چھپ گئی ہے۔ لیکن کیا حقیقت بھی ایسی ہی ہے ؟ آئیے حقائق کی روشنی میں اس پروپیگنڈہ کا جائزہ لیں : دعوت اور اشاعت ِاسلام کے بارے میں قرآنِ حکیم نے مسلمانوں کو جو بنیادی اَحکام دیئے ہیں وہ درج ذیل ہیں : ۱۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ”دین کے معاملہ میں زبردستی نہیں “ (البقرة:۲۵۶) یعنی کسی کو دین منوانے کے لئے شریعت ِاسلامیہ میں زبردستی یا جبر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ آیت ِمبارکہ کا شانِ نزول یہ ہے کہ اَنصار کے ایک قبیلہ بنو سالم بن عوف کے ایک آدمی کے دو لڑکے عیسائی تھے، انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ مجھے اجازت دی جائے کہ میں ان لڑکوں کو جبراً مسلمان بنالوں، اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ (تفسیر ابن کثیر) ۲۔ سورہ کہف میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے : ﴿فَمَنْ شَآءَ فَلْيُوٴْمِنْ وَمَنْ شَآءَ فَلْيَکْفُرْ﴾ (آیت ۲۹) ”جس کا جی چاہے ایمان لائے، جس کا جی چاہے انکار کردے“ آیت ِکریمہ کا مطلب بالکل واضح ہے کہ اسلام میں زبردستی دین منوانے کا اللہ تعالیٰ نے حکم نہیں