کتاب: محدث شمارہ 246 - صفحہ 52
کے وسائل معیشت و تجارت پر قبضہ کرنے کیلئے قتال اور خون ریزی کی اجازت دے سکتا؟ ہرگز نہیں !! (۲) مذہبی جبر خون ریزی اور جنگ و جدل کا دوسرا بڑا جذبہ محرکہ مذہبی جبر رہا ہے،چند مثالیں ملاحظہ ہوں : ۵۲۳ء میں یمن کے یہودی بادشاہ ذونواس نے عیسائیوں کے مرکز نجران پر حملہ کیا تاکہ وہاں سے عیسائیت کا خاتمہ کرکے لوگوں کو یہودیت اختیار کرنے پر مجبور کرے۔ عیسائیوں نے یہودیت اختیار کرنے سے انکار کردیا تو ذونواس نے حاکم نجران ’حارثہ‘ کو قتل کردیا۔ اس کی بیوی ’رومہ‘ کے سامنے اس کی دو بیٹیوں کوقتل کیا اور ماں کو بیٹیوں کا خون پینے پر مجبور کیا۔بعد میں ’رومہ‘ کو بھی قتل کردیا۔ بشپ پال کی ہڈیاں قبر سے نکال کر جلائیں، گڑھے کھود کر ان میں آگ جلوائی جن میں عورتوں، مردوں، بچوں، بوڑھوں سب کو پھینکوا دیا۔ مجموعی طور پر ۲۰ ہزار سے ۴۰ ہزار تک زندہ انسانوں کوآگ میں جلا دیا، اس واقعہ کا تذکرہ قرآنِ مجید سورہ بروج میں ان الفاظ میں کیا گیاہے : ﴿وَمَا نَقَمُوْا مِنْهُمْ اِلاَّ اَنْ يُّوْمِنُوْا بِاللّٰهِ الْعَزِيْزِ الْحَمِيْدِ﴾ (آیت ۸) ”اہل ایمان سے ان کی دشمنی اس کے سوا کسی وجہ سے نہ تھی کہ وہ اس اللہ پر ایمان لائے تھے جو زبردست اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے“ (تفہیم القرآن: جلد ششم، سورہ بروج، حاشیہ ۴) ۳۰۳ء میں شہنشاہ روم ڈریو کلیٹیان نے اپنی مملکت سے عیسائیت ختم کرنے کے لئے حکم جاری کیا کہ تمام کلیسا مسمار کردیئے جائیں ۔ انجیلیں جلا دی جائیں، کلیساؤں کے اَوقاف ضبط کرلئے جائیں، جو شخص مسیحی مذہب پر اصرار کرے، اسے قتل کردیا جائے۔ اس حکم کے باوجود جن عیسائیوں نے عیسائیت ترک کرنے سے انکار کیا، ان کے بدن زخمی کرکے ان پرسرکہ اور نمک ڈالا جاتا، بعد میں ان کی بوٹی بوٹی کاٹی جاتی۔ بعض اوقات ان کو عبادت گاہوں میں بند کرکے آگ لگا دی جاتی، زیادہ لطف اٹھانے کے لئے ایک ایک عیسائی کو پکڑ کر دہکتے ہوئے اَنگاروں پرلٹا دیا جاتا یا لوہے کے کانٹے اس کے بدن میں بھونکے جاتے۔ (الجہاد فی الاسلام از ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ، ص۴۴۸) ۱۴۹۲ء میں سپین سے مسلمانوں کی حکومت ختم ہوئی تو صرف آٹھ برسوں کی قلیل مدت میں وہاں کی عیسائی حکومت نے مسلمانوں سے اِسلام چھڑانے کی مہم شروع کردی۔ سپین کے ساڑھے تین لاکھ سرکردہ مسلمانوں کو ایک مذہبی عدالت کے سامنے پیش کیا گیا۔ عدالت نے ۲۸ ہزار ۵ سو ۴۰ مسلمانوں کوموت کی سزا سنائی اور بارہ ہزار مسلمانوں کو زندہ جلانے کا حکم دیا۔ مسلمانوں کی سینکڑوں لائبریریاں جن میں لاکھوں کتابیں تھیں،نذرِ آتش کردیں۔بالآخر ۱۶۱۰ء میں تمام مسلمانوں کو ترکِ وطن کا حکم دے دیا گیا۔ ڈیڑھ لاکھ عربوں کا ایک قافلہ بندرگاہ کی طرف جارہا تھاکہ بلیڈا نامی ایک پادری نے غنڈوں کو ساتھ ملا کر قافلہ
[1] صلیبیوں نے داخلہ بیت المقدس کے موقع پر فتح کے نشہ میں سرشار ہو کر مجبور مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک کیا، ان کا ذکر ایک مسیحی مؤرخ ان الفاظ میں کرتا ہے : ’’بیت المقدس میں فاتحانہ داخلہ پر صلیبی ’مجاہدین‘ نے ایسا قتل عام مچایا کہ کہ بیان کیا جاتاہے کہ ان صلیبیوں کے گھوڑے جو مسجد عمر میں سوار ہوکر گئے تھے، گھٹنے گھٹنے خون میں ڈوبے ہوئے تھے۔ بچوں کی ٹانگیں پکڑ کر ان کو دیوار سے دے مارا جاتا، یا ان کو چکر دے کر فصیل سے پھینک دیا جاتا۔‘‘ (انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا: ج ۷، ص ۶۲)