کتاب: محدث شمارہ 246 - صفحہ 51
اس لئے شریک ہوا کہ تیر آکر میرے حلق میں لگتا اور میں شہید ہوجاتا“ (نسائی) …غزوہ بدر میں مالِ غنیمت کی تقسیم کے بارے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں اختلاف پیدا ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ﴿يَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْاَنْفَالِ قُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰهِ وَالرَّسُوْلِ﴾ (سورہ انفال: ۱) ”لوگ تم سے مال غنیمت کے بارے میں پوچھتے ہیں،کہو :یہ مال تو اللہ اور اس کے رسول کاہے“ چنانچہ اس آیت کے نزول کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تمام اختلافات ختم ہوگئے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق مالِ غنیمت تقسیم فرمایا۔ اسلامی تعلیمات کے بعد اب چند مثالیں پیغمبر اسلام کی حیاتِ طیبہ سے ملاحظہ فرمائیں : ٭ ۷ ہجری میں مکہ فتح ہوا تو مسلمانوں کو ان کی جائیدادوں، ان کے اَموال، ان کے کاروبار سے محروم کرنے والے درندہ صفت مجرم لوگ فاتح کے سامنے دست بستہ حاضر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تو انہیں ان کی جائیدادوں اور ان کے اَموال سے اسی طرح محروم کرسکتے تھے جس طرح انہوں نے مسلمانوں کو کیا تھا لیکن تاریخ انسانی میں حسن عمل اور عظمت ِکردار کی ایسی ایک بھی مثال نہیں ملتی کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کفار کی جائیدادوں اور اَموال کو چھوڑ اپنی چھینی ہوئی جائیدادوں اور اَموال کی واپسی کا مطالبہ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو مال اور جائیدادیں اللہ کے لئے چھوڑ چکے ہو، انہیں واپس نہ لو“( غزواتِ مقدس از محمدعنایت اللہ وارثی، ص۳۵) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اس منفرد اور تابناک فرمان کے سامنے فوراً سرتسلیم خم کردیا۔ کیا لوٹ مار کرنے، غنائم حاصل کرنے، دوسروں کی تجارت پر قبضہ کرنے، دولت سمیٹنے والے جاہ پسند اور اقتدار پرست فاتحین کا طرزِ عمل ایسا ہی ہوتا ہے؟ ٭ سقوطِ مکہ کے بعد حنین فتح ہوا تو مالِ غنیمت میں ۲۴ ہزار اونٹ، ۴۰ ہزار بکریاں اور ۶ ہزار کلو گرام چاندی حاصل ہوئی، اسیرانِ جنگ کی تعداد ۶ ہزار تھی۔ اموالِ غنیمت تقسیم کرنے سے قبل رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے دو ہفتہ انتظار فرمایا تاکہ اگر کوئی وفد تائب ہو کر گفت و شنید کے لئے آئے تو تمام اَموالِ غنیمت واپس کردیئے جائیں جب کوئی وفد نہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سارے اَموال لشکراسلام میں اس طرح تقسیم فرمائے کہ صرف اپنی چادر باقی رہ گئی۔ اس کے بعد لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر میرے پاس تہامہ کے درختوں کی تعداد کے برابر مویشی ہوتے تو میں انہیں بھی تمہارے درمیان تقسیم کردیتا اور تم مجھے ایسا کرتے ہوئے نہ بخیل پاتے، نہ بزدل، نہ جھوٹا۔ “ کوئی ذی ہوش آدمی یہ تصور کرسکتا ہے کہ تاریخ عالم میں ایسی زرّیں مثالیں پیش کرنے والا فاتح جس مذہب کی تعلیم لے کر آیا ہے وہ حصولِ غنائم کے لئے، دولت ِدنیا سمیٹنے کے لئے، جلب ِزر کیلئے اور دوسروں