کتاب: محدث شمارہ 246 - صفحہ 49
اور ہوسِ ملک گیری کا نتیجہ ہے یا محض دہشت گردی اور فساد فی الارض برپا کرنا اس کا مقصد ہے؟ جہاد کے حوالے سے یہ سوال بڑا اہم ہے۔ کتاب و سنت کی روشنی میں ہم اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کریں گے…تاریخ انسانی میں جتنی بھی جنگیں لڑی گئی ہیں ان کے پیچھے دوسرے محرکات کے علاوہ دو بڑے محرکات یہ رہے ہیں : ۱۔ہوسِ دولت اور ہوسِ ملک گیری ۲۔ مذہبی جبر ہم بار ی باری ان دونوں محرکات کا تجزیہ کرکے یہ دیکھیں گے کہ ان میں سے کون سا جذبہ محرکہ جہادِ اسلامی کے پیچھے کارفرما ہے ۔ (ا) ہوسِ دولت اور ہوسِ ملک گیری ہمارے سامنے اس صدی کی دو عظیم جنگوں کی تاریخ موجود ہے، ان دونوں جنگوں میں فریقین کے اَغراض و مقاصد درج ذیل تھے ۔جنگ ِعظیم اوّل (۱۹۱۴ء تا ۱۹۱۸ء) کے اَغراض و مقاصد : ۱۔ ۱۸۷۰ء میں جرمنی نے زبردستی فرانس کے علاقوں پر قبضہ کرلیا۔ ۲۔ جرمنی کی بڑھتی ہوئی تجارتی اور صنعتی ترقی روکنے کے لئے برطانیہ ان بحری تجارتی راستوں پر اپنا قبضہ کرنا چاہتا تھا جن پر جرمنی قابض تھا جبکہ جرمنی ان بحری تجارتی راستوں کوبھی اپنے قبضہ میں لینا چاہتا تھا جو برطانیہ کے قبضہ میں تھے۔ ۳۔ ۱۹۰۷ء میں روس اور فرانس نے برطانیہ سے ترکی اور جزیرہ نمائے بلقان میں اپنی تجارت بڑھانے کے لئے معاہدہ کیا جبکہ جرمنی اور آسٹریلیا نے اپنی تجارت کو فروغ دینے کے لئے جزیرہ نمائے بلقان پر قبضہ کرنے کامعاہدہ کیا۔ جنگ ِعظیم اوّل کے یہ تین بنیادی اسباب تھے۔ تینوں ہی ہوس ملک گیری، ہوس دولت اور وسعت ِتجارت کے جذبہ سے معمور ہیں … اب ایک نظر جنگ ِعظیم دوم (۱۹۳۹ء تا ۱۹۴۵ء) کے اغراض و مقاصد پر ڈالئے جو کہ درج ذیل تھے : ۱۔ جرمنی نے ۱۹۳۸ء میں آسٹریا پر اور ۱۹۳۹ء میں چیکوسلواکیہ پر زبردستی قبضہ کرلیا۔ ۲۔ اٹلی پہلی جنگ ِعظیم کا فاتح تھا جسے شکوہ تھا کہ اسے فتح کے کماحقہ ثمرات نہیں ملے چنانچہ اس نے ۱۹۳۶ء میں ایتھوپیا پر زبردستی قبضہ کرلیا۔ ۳۔ ۱۹۳۹ء میں جاپان نے چین کے ایک صوبہ پر زبردستی قبضہ کرلیا۔ ۴۔ ۱۹۳۹ء میں سوویت یونین اور جرمنی نے ایک خفیہ معاہدے کے ذریعہ پولینڈ کے حصے بخرے